Latest News

’م‘ سے مہنگائی نہیں’ مندر' : حسام صدیقی۔

’م‘ سے مہنگائی نہیں’ مندر' : حسام صدیقی۔
گزشتہ دنوںمرکزی وزیر اسمرتی ایرانی اپنے لوک سبھا حلقہ کے ایک پرائمری اسکول میں گئیں، بلیک بورڈ پر انہوں نے ہندی کا’م‘ لکھا اور بچوں سے سوال کا کہ وہ کون سا لفظ ہے جو ’ م‘ سے شروع ہوتا ہے،انہوںنے خود ہی اپنا ویڈیو بھی وائرل کر دیا۔ ظاہر ہے انہیں بچوں سے یہ توقع تھی کہ بچے ’ م‘ سے شروع ونے والا لفظ مندر ہی بتائیں گے، کافی بچوں نے بتایا بھی۔ اسمرتی ایرانی کا ویڈیو وائرل ہوا تو بڑی تعداد میں لوگوں نےکمنٹ کرتے ہوئے لکھا کہ اسمرتی صاحبہ اس وقت تو ’ م‘ سےشروع ہونےوالا لفظ مہنگائی ہی ہے جس کے نام پر آپ اور آپ کی پوری سرکار ۲۰۱۲ میںمنموہن سنگھ سرکار کے خلاف سڑکوں پر تھی۔ اب اسمرتی ایرانی ہوں، راجناتھ ہوں، نریندر مودی سمیت دیگر بی جے پی لیڈران آج کوئی بھی مہنگائی پر زبان کھولنے کو تیارنہیں ہے۔ منموہن سنگھ وزیر اعظم تھے تو گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے نریندر مودی ان پر روز طنز کر تے تھے اور مہنگائی قابو میںکرنے کی طرح طرح کی ترکیبیں بتا تے رہتے تھے، اب خود نریندر مودی ملک کےوزیراعظم ہیں، مہنگائی آسمان چھو رہی ہےلیکن خود ان کی سمجھ میں کچھ نہیںآرہا ہےیا جان بوجھ کر کچھ کرنا نہیں چاہتے ہیں۔
مہنگائی کی اصل وجہ تو پٹرول، ڈیژل اور سی این جی وغیرہ کی قیمتوں میں اناپ شناپ اضافہ ہے۔ اب تو ایل پی جی سلینڈر بھی ایک ہزار روپئے سے اوپر ہو گیا ہے۔ آٹے کی قیمت میں الگ الگ ریاستوں میں پندرہ سے چالیس فیصد تک کا اضافہ ہو چکا ہے۔کھانے کے تیل، چاول، شکر، گھی، دودھ دہی ایک بھی سامان ایسا نہیں ہے جس کی قیمت میں تکلیف دہ اضافہ نہ ہوا ہو۔ اخباروں کی قیمتوں میں تیس سے ساٹھ فیصد تک کااضافہ گزشتہ چند دنوں میں ہوا ہے۔ ہو بھی کیوں نہ اخباری کاغذ (نیوز  پرنٹ)کی قیمتوں میں بھی اسی اندازمیں اضافہ ہوا ہے۔ دواؤں کی قیمتیں بھی آسمان چھو رہی ہیں۔ اب تو فقیر بھی دس روپئے کا نوٹ لینے میںمنھ بناتاہے۔ اس سال یعنی ۲۲جنوری سے پندرہ مئی تک ساڑھے چا رمہینوں میں ایک بھی ہفتہ ایسانہیںگزرا ہے جب خودر ہ اور تھوک مہنگائی میں اضافہ نہ ہوا ہو۔ خودرہ مہنگائی آٹھ سالوں میں سب سے زیادہ بڑھی ہے۔خطرناک بات یہ ہےکہ شہری علاقوں میں خودرہ مہنگائی پونےآٹھ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ دیہاتوں میں رہنے والوں کی آمدنی شہروں کے مقابلے میں بہت کم اور مہنگائی زیادہ ہے۔
اتنی مہنگائی کے باوجود عام لوگوں میں سرکار کے خلاف کوئی رد عمل یا ناراضگی نہیں نظر آتی ہےکیوں کہ سرکار نےعام لوگوں کو دھرم کی افیم چٹا رکھی ہے اور مذہب کے نشہ میں لوگوں کا ’ م‘ سے مہنگائی نہیں’مندر‘ ہی دکھ رہا ہے۔ وہ بھی ایک نہیں کئی مندر۔ پارلیمنٹ سے منظور ۱۹۹۱ کے مذہبی مقامات بل اور بابری مسجد ؍ رام جنم بھومی معاملے میں سپریم کورٹ کے آرڈر میں کہی گئی باتوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنارس کے سول جج سینئر ڈویزن نے ایک درخواست پر آرڈر دے دیا کہ گیان واپی مسجد، اس کے تہہ خانے او ر دیواروں وغیرہ کاسروے کرایا جائے۔ سروے کرانے کی درخواست دینے والوں کا خیال ہے کہ اندر کچھ ایسے نشانات اور سامان ملیں گے جس سے پتہ چلے گا کہ مندر توڑ کر اس جگہ پرمسجد بنائی گئی۔ گیان واپی مسجد کے ساتھ متھر کی عید گاہ مسجد، قطب مینار اوریہاں تک کہ تاج محل کو تیجو مہالیہ بتا کر اس کے نیچے کے کمروں کا معائنہ کرنے کا مطالبہ سامنے آگیا۔ خود کو مین اسٹریم میڈیا کہنے والے ٹی وی چینلوں نے سارا سارا دن ان معاملات سے متعلق خبریں کچھ اس انداز میں چلائیں کہ جیسے ملک کی تمام مساجد اور مغلوں کے ذریعہ بنوائی گئیں عمارتوں کے نیچے مندر کے کھنڈہر دبے پڑے ہوں۔ لوگ اس مندر کی سیاست میں کچھ اس طرح الجھ گئے کہ انہیں مہنگائی اور ضروری سامانوں کی بڑھی ہوئیں قیمتوں کااحساس تک نہیں ہوا۔
مندر اور دھرم کے سہارے صرف مہنگائی سے ہی لوگوں کا دھیان ہٹایا نہیں گیاہے بلکہ اس کے ذریعہ ووٹوں کی ایک لمبی سیاست بھی چل رہی ہے۔ پوری دنیا کا طریقہ ہے کہ اگر کسی ملک میں کوئی ہنگامہ ہو جائے تو وہاں کے حکمراں صدر ہوں یا وزیر اعظم لوگوں سے امن وامان برقرار رکھنے کی اپیل کرتے ہیں۔ہمارے ملک میں یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ رام نومی اورہنومان جنتی کے جلوسوں کے دوران مدھیہ پردیش، گجرات ، دہلی اور راجستھان سمیت کئی ریاستوں میں دنگا فساد ہو گیا تو کرناٹک میں ہندو تو وادی تنظیموں نے حجاب، حلال گوشت، مسلم پھل فروشوں سےپھل نہ خریدنے اور مسلمان ڈرائیوروں کی ٹیکسیوں میںہندوؤں کو سفر نہ کرنے جیسے بےہودہ مسئلے اٹھا کر بڑے پیمانے پر کشیدگی پھیلا دی لیکن ہمارے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بار بھی لوگوں سے امن وامان قائم رکھنے کی اپیل نہیں کی۔مدھیہ پردیش کے کھرگون میں دنگا کم، مسلمانوں کے خلاف سرکاری ایکشن زیادہ ہوا۔ دو لوگوں کی موت ہوگئی ۔وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے ایک کے بعد ایک پانچ ٹوئٹ کئے اور پانچوں ٹوئٹ مسلمانوں کو دھمکانے والے تھے۔ ایک میں بھی انہوں نے امن کی اپیل نہیں کی۔ یہ کس قسم کی حکمرانی ہے۔
 مہنگائی کا جہاں تک سوال ہے فی الحال کوئی کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہی ہونےوالا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں جس اندازمیں بھارت کا امپورٹ اور ایکسپورٹ بیلنس بگڑا ہے ایکسپورٹ کے مقابلے امپورٹ تقریباً ڈیڑھ گنا ہو گیا ہے۔اس سے ملک میں غیر ملکی کرنسی (ڈالر)کا بھی بحران پیدا ہونے کا خطرہ نظر آرہا ہے۔ غلے کی پیداوار بھی کم ہو رہی ہے ۔ اس سال صرف گیہوں کی ہی پیداوار میں تقریباً چالیس لاکھ میٹر ک ٹن کی کمی آئی ہے۔ کچھ بڑے کارپوریٹ گھرانے گیہوں غیر ممالک میں بھیجتے رہے اور سرکار نےاس سے آنکھیں موند رکھیں۔ جب گیہوں کا بحران پیدا ہونے کا خطرہ نظر آیاتو ایکسپورٹ پر روک لگائی گئی۔ پڑوسی ملک سری لنکا میں آج کیا ہو رہا ہے۔ وہاں کھانے پینے کے سامان کی اتنی قلت ہو گئی ہے کہ نوبت چھینا جھپٹی اور غیر ممالک سے بھیک مانگنے تک پہنچ گئی ہے ۔سری لنکا کےپاس غیر ملکی کرنسی بالکل نہیں ہے۔ وہاںکی سرکار بھی ۲۰۰۵ سے سنہلی بنام تمل ہندو اور مسلم مسائل کوہوا دے رہی تھی۔مسلمانوں اور تملوں کارہنا مشکل ہوگیا تھا۔ اب بے قابو سہنلی اپنے ہی لیڈروں کو مار رہے ہیں اور ان کے گھر جلا رہے ہیں تو کیا بھارت بھی سری لنکا کے راستہ پر چل پڑا ہے؟
نریندر مودی کی بی جے پی کو لوک سبھا میں اکثریت حاصل ہے۔ راجیہ میں بھی بی جے پی کے ممبران کی تعداد کوئی بھی بل پاس کرانے کے لائق ہے۔پندرہ جون کو راجیہ سبھا کی ۵۷ سیٹوں کاالیکشن ہونا ہےاس کے بعد لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں میں بی جے پی کی اکثریت ہو جائے گی۔ روز روز وارانسی اور متھرا جیسے مدے اٹھوانے کے بجائے مودی سرکار کوچاہئے کہ پارلیمنٹ سے پاس شدہ ۱۹۹۱ کے مذہبی مقامات بل کو ختم کرا دے۔ آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد کی وہ لسٹ شائع کر دے جس لسٹ میں تین ہزار ایسی مساجد اور درگاہوں کے نام شامل بتائے جاتے ہیں جن کیلئے دعویٰ ہے کہ وہ مندر توڑ کر بنائے گئے ہیں۔وہ فہرست جاری کر دیں اور ایک ساتھ ہی تمام مندروں کی بحالی کا کام سرکار کرا دے۔

اداریہ 
جدید مرکز، لکھنؤ
مؤرخہ 22 تا 28 مئی، ۲۰۲۲

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر