Latest News

شرم سے سر تو جھکا لیکن تسلیم نہیں کرتے: حسام صدیقی۔

شرم سے سر تو جھکا لیکن تسلیم نہیں کرتے: حسام صدیقی۔
اداریہ
جدید مرکز، لکھنؤ
مؤرخہ ۱۲ تا ۱۸، ۲۰۲۲
وزیراعظم نریندر مودی کہتے ہیں کہ آٹھ سال کی سرکار میں انہوں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس سے ملک کے لوگوں کا سر شرم سے جھکا ہو۔ ان کے اس دعوے میں پوری سچائی نہیں ہے، ملک کے لوگوں کا سر ملک کے اندر اور دنیا میں کئی بار شرم سے جھکا ہے، لیکن ہم اسے ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ مودی یہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ انہوں نے ایس کوئی کام نہیں کیا لیکن انہوں نے اپنی پارٹی اور آر ایس ایس سے جڑے لوگوں کو بار بار ایسی حرکتیں کرنے کی کھلی چھوٹ دی جس سے پوری دنیا میں بھارت کا سر شرم سےجھکا ہے۔ اس سلسلے میں دو تازہ واقعات کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ ایک بی جے پی کی اب تک ترجمان رہیں انتہائی بدزبان خاتون نوپور شرما کا پیغمبر اسلامﷺ کی شان میں دیا گیا توہین آمیز بیان اور دوسرا امریکی وزیر خارجہ کے ذریعہ دو جون کو جاری کی گئی یو ایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجن فریڈم رپورٹ۔ ان دونوں نے پوری دنیا میں بھارت کا سر شرم سے جھکایا ہے، نوپور شرما انتہائی بدزبان اور زہریلی باتیں کرنے والی خاتون ہے، یہ بات تو بی جے پی نے خود ہی ان کو معطل کرنے والے خط میں لکھ دی۔
وزیراعظم مودی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے ایساکو ئی کام نہیں کیا، لیکن انہیں بتانا چاہئے کہ نوپور شرما کس کی مرضی سے پارٹی میں اتنی بلندی تک پہونچ گئی۔ اس بدتمیز قسم کی خاتون کے اندر دوسری پارٹیوں کے لیڈران اور مسلمانوں کے خلاف اناپ شناپ بکنے کے علاوہ دوسری کوئی صلاحیت نہیں ہے۔ابھی تک اسے کچھ بھی زہر اگلنے کی چھوٹ پارٹی نے اور مودی نے دے رکھی ہے۔ اب جب اس کا تازہ بیان سب کے گلے میں پھنس گیا تو اسے پارٹی سے چھ سال کے لئے صرف معطل کیا گیا ہے۔ نوپور ہو یا کوئی اور ہر کسی کو اس بات کا علم ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مسلمان ایک اللہ، اس کے بھیجے ہوئے آخری نبیﷺ اور ان پر اللہ کی طرف سے اتاری گئی اللہ کی کتاب قرآن کی توہین میں ایک لفظ بھی نہیں سن سکتا۔ اس کےباوجود اس بدزبان نوپور نے پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں جان بوجھ کر گستاخی کی  تاکہ مسلمان مشتعل ہوں، اس کے ایک اور زہریلے ساتھی دہلی ریاستی بی جے پی کے میڈیا انچارج نوین جندل نے اس کی بات کو ٹوئیٹ کرکے پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ دونوں نے مل کر دنیا کے سامنے بھارت کو شرمندہ کرنے کا جرم کیا ہے لیکن ان کے خلاف قانونی کاروائی نہیں کی گئی۔
ملک میں قانون ہے کہ دو طبقات، دو دھرموں اور دو مذہبی سماجوں کے درمیان نفرت پھیلانے والی بیان بازی کرنے والوں کے خلاف۱۵۳ اے، ۲۹۵ اے، ۲۹۶ جیسی سخت دفعات کے تحت مقدمہ لکھا جاتا ہے اور انہیں جیل بھیجا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر نوپور شرما اور نوین جندل نے دو مذاہب کے بیچ نفرت پھیلانے والی بیان بازی کی تو ایک کو پارٹی سے نکال کر اور دوسرے کو صرف معطل کرکے لیپا پوتی کیوں کی گئی۔ مودی حکومت نے دہلی پولیس کے ذریعہ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کراکر قانونی کاروائی کیوں نہیں کی، انہیں تو فوراً جیل بھیجا جانا چاہئے تھا۔ اس سے تو ظاہر ہے کہ بی جے پی اور وزیراعظم مودی کی نوپور شرما کے ساتھ ہمدردیاں آج بھی جاری ہیں، نوپور ہمیشہ سے ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر دوسری پارٹیوں اور ان کے لیڈران کے خلاف بدزبانی کرتی رہی ہے اورپارٹی کی جانب سے ہمیشہ اس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اس کھلی چھوٹ سے اس کا دماغ اتنا خراب ہوگیا کہ اب اس کی بدزبانی پیغمبر اسلامﷺ تک پہونچ گئی۔ پارٹی کی جانب سے کاروائی ہونے کے بعد اس بزدل اور بے ایمان خاتون نے باقاعدہ معافی تک نہیں مانگی صرف اتنا کہا ہےکہ اگر اس کی بات سے کسی کا دل دکھا ہو تو وہ اپنے الفاظ و اپس لیتی ہے، ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ بی جے پی اس کی معطلی کی کاروائی کچھ مدت بعد ہی واپس لے لے گی۔
دوسرا معاملہ امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کے ذریعہ دو جون کو جاری’یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم‘ کی رپورٹ ہے۔ یہ رپورٹ ملک کے لئے شرمناک ہے،زیادہ شرمناک اس لئے بھی ہے کہ اس رپورٹ کے ذریعہ بھارت کو افغانستان اور پاکستان کے برابر کھڑا کردیا گیا ہے۔ رپورٹ میں چین کا بھی ذکر ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان اورافغانستان کی طرح بھارت میں بھی اقلیتوں(مسلمانوں اور عیسائیوں) اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ آنے کے بعد ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی کا جو ردعمل آیا وہ اور بھی ز یادہ افسوسناک ہے۔ ارندم باگچی نے سیاست دانوں کی طرح بیان دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی یہ رپورٹ ووٹ بینک کو خیال میں رکھتےہوئے جاری کی گئی ہے۔انہیں تو بڑی سختی کے ساتھ یہ کہنا چاہئے تھا کہ ہمارے اندرونی معاملات میں اس طرح کا دخل دینے کا کوئی حق امریکہ کو نہیں ہے لیکن وہ ووٹ بینک لے آئے۔
سوشل میڈیا کا دور ہے، ہر واقعہ منٹوں میں پوری دنیا کی نظر میں آجاتا ہے۔ اگر ملک کے کسی کونے میں کرناٹک کی طرح عیسائیوں اور مسلمانوں کے خلاف ہندوتوا کے ٹھیکیدار غنڈے کسی طرح کی حرکت کرتے ہیں، کرناٹک کی بی جے پی حکومت عیسائیوں اور چرچوں کا سروے کراتی ہے، مسلمان دکانداروں سے سامان نہ خریدنے کے کھلے عام فرمان جاری کرتی ہے تو یہ خبریں سوشل میڈیا کے ذریعہ پوری دنیا میں منٹوں میں پھیل جاتی ہیں۔ اب اگر دنیا میں ان حرکتوں کے خلاف ردعمل ہوتاہے یا امریکہ جیسے ملک کوئی رپورٹ تیار کرتے ہیں تو اس میں ووٹ  بینک کی سیاست کہاں سے آگئی۔ امریکہ کی برسر اقتدار پارٹی ڈیموکریٹس کو بھارت میں کون سا الیکشن لڑنا ہے جو وہ ووٹ بینک کی سیاست کرے گی۔ مدھیہ پردیش میں شیو راج سنگھ چوہان کی بی جے پی سرکار نے مسلمانوں کے ساتھ جو دشمنوں جیسا رویہ اختیار کررکھا ہے، وہ بھی پوری دنیا کی نظر میں ہے۔
بھارت کا آئین صاف کہتا ہےکہ ہر شخص کو اپنی مرضی کا مذہب اختیار کرنے، اپنی مرضی سے شادی کرنے اور اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی سرکاروں نے آئین کے ذریعہ دیئے گئے اس حق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مذہب تبدیل کرنے کےخلاف قانون بنا دیا۔ پورا ملک خصوصاً سپریم کورٹ تک آئین کی روح کے خلاف بنائے گئے اس قانون پر خاموش رہا۔ تو کیا سرکاریں یہ چاہتی ہیں کہ پوری دنیا خاموش رہے۔ مذہب تبدیلی مخالف قانون بھی تبھی لاگو ہوتا ہے جب کوئی ہندو عیسائی یا مسلمان بنے، کوئی مسلمان یا عیسائی اگر ہندو بنتا ہے تو اس کا کھلے عام ’شدھی کرن‘ کرایا جاتا ہے اور یہ قانون لاگو نہیں ہوتا، اسے گھر واپسی کا نام دیا جاتا ہے۔ ملک میں چل رہی یہ ایسی حرکتیں ہیں جن سے ملک اور ملک کے لوگوں کا سر شرم سے جھکتا ہے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر