Latest News

لولومال۔ وکاس اور وناش: اتواریہ؍ شکیل رشید

لولومال۔ وکاس اور وناش: اتواریہ؍ شکیل رشید
جب میں کبھی سرکاری اور نیم سرکاری دفتروں اور پولس تھانوں میں جاتا ہوں تو وہاں دیوی دیوتاؤں کی پھول مالا چڑھی تصویروں کو دیکھ کر کوئی حیرانی نہیں ہوتی ۔ خراب بھی نہیں لگتا۔ مجھے پتہ ہے کہ ایک سیکولر ملک میں سیکولرآئین کی روسے سرکاری دفتروں میں دیوی ویوتاؤں کی تصویروں یا مورتیوں کا رکھنا منع ہے ۔لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ کسی کو اپنے کام کی جگہ پر تصویر یا مورتی رکھنے سے جبراً روک دیا جائے ۔ اورروکا بھی نہیں جاتا ، کہ ایسا کرنا مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہے ۔ اور کوئی یہ نہیں چاہتا یا نہیں چاہے گا کہ کسی کے مذہبی معاملے میں دخل دے کر اس کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی جائے ۔ اس لیے اس ملک میں سرکاری ، نیم سرکاری دفتروں اور پولس تھانوں میں مذہبی رسو مات کی ادائیگی کو عموماً نظرانداز کیا جاتا ہے ۔ اور آج سے نہیں آزادی کے بعد ہی سے یہ چلن ہے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری منصوبوں کی شروعات ’ پوجا‘ سے ہی کی جاتی ہے ، اور سرکاری عمارتوں اور سرکاری فیکٹریوں وغیرہ میں چھوٹے چھوٹے مندر بھی موجود ہوتے ہیں ۔ مسلمانوں نے کبھی نہ اس پر اعتراض کیا نہ ہی کسی کو عوامی جگہوں پر پوجا پاٹ سے روکا ۔۔۔ مسلمانوں کو بھی بہت سی جگہوں پر اپنی عبادت کے لیے آزادی حاصل رہی ہے ، مجھے خوب یاد ہے کہ ممبئی میں منترالیہ میں باقاعدہ باجماعت نماز پڑھی جاتی تھی۔ لیکن اب جب سے بی جے پی نے ’مذہبی نفرت‘ کو شدید کیا ہے ایسی ’نمازیں‘ جو عوامی جگہوں پر اداکی جائیں ، ایک مخصوص ذہنیت رکھنے والوں کو ۔۔۔۔ میں انہیں یرقانی کہتا ہوں ، کچھ لوگ انہیں زعفرانی اور بھگوا دھاری بھی کہتے ہیں ۔۔۔ زہرلگنے لگی ہیں ۔ لکھنؤ کے ’ لولومال‘ میں بھی کچھ یہی ہوا ہے ۔ چند لوگوں نے’ مال‘ میں باجماعت نماز پڑھ لی ، بس کیا تھا کہ نفرت سے بھرے لوگوں نے ایک ہنگامہ شروع کردیا ۔ مان لیا کہ نماز پڑھنے والوں کو کسی مسجد کا رخ کرنا چاہیئے تھا ، لیکن اگر وہ مسجد نہیں جاسکے اور وقت کی تنگی کو مدّنظر رکھتے ہوئے انہوں نے ’مال‘ ہی میں نماز پڑھ لی تو اس پر ایسا ہنگامہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ ان نماز پڑھنے والوں کو سمجھایا جاسکتا تھا کہ آئندہ ’مال‘ کے اندر نماز نہ پڑھی جائے ۔ بلکہ میں یہ کہوں گا کہ آج کے حالات میں ہر اُس مسلمان کو جو نماز پڑھتا ہے ، یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ مسجد میں نماز پڑھے کسی عوامی جگہ پر قطعی نماز نہ پڑھے۔ اور پھر ایسا بھی نہیں کہ ہنگامہ کے بعد نمازیوں پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی ، کارروائی کی گئی ، لولومال‘ کے مینجمنٹ نے ازخود ایف آئی آر درج کروائی ، اس کے بعد کوئی ہنگامہ نہیں ہونا چاہئےتھا۔ مگر ہنگامہ ہوا ، اور ’لولومال‘ کے باہر ’جے شری رام‘ کے نعرے لگے ،ہنومان چالیسا کا پاٹھ ہوا ، اور سارے معاملے کو انتہائی گھناونا مذہبی رنگ دے دیا گیا ۔ ’لولومال‘ کے مالک یوسف علی ایم اے ہندوستانی ہی ہیں ، ابوظہبی میں رہتے ہیں ، ارب پتی ہیں اور ان کے ’مال‘ دنیا بھر میں کھلے ہوئے ہیں، انہوں نے لکھنؤ میں اپنا ’ مال‘ کھول کر یوپی کی معاشی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے ، اس ’ مال‘ میں لوگ نوکریاں پارہے ہیں اور سرکاری خزانے میں یہاں سے ٹیکس جارہا ہے ۔ یہ ایک مسلم ارب پتی کایوپی اور ملک کی ترقی میں حصہ ہے ۔ انہوں نے ملک میں کئی جگہ ’ مال‘ اور فیکٹریاں کھول رکھی ہیں ۔ کیا اس طرح کے مذہبی ہنگامے آئندہ کسی مسلمان ارب پتی کو اس ملک میں پیسہ لگانے پر آمادہ کرسکیں گے؟ نہیں ، یہ ہنگامے ملک کی ترقی کے آڑے آئیں گے۔ لیکن کہاں اس ملک کے لوگوں کو ’ ترقی‘ یعنی ’ وکاس‘ کی پڑی ہے ، وہ تو ’وناش‘ کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر