Latest News

بنگلورو عیدگاہ میدان میں 'گنیش اُتسو' کی پوجا نہیں ہوگی، سپریم کورٹ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کردیا، نماز کی ادائیگی سے بھی روکا۔

بنگلورو عیدگاہ میدان میں 'گنیش اُتسو' کی پوجا نہیں ہوگی، سپریم کورٹ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کردیا، نماز کی ادائیگی سے بھی روکا۔
نئی دہلی: بنگلوروکے چامراج پیٹ عیدگاہ میدان میں گنیش چتروتی کےا نعقادکی مخالفت کرتے ہوئے کرناٹکا وقف بورڈنے سپریم کورٹ میں جو عرضی دائرکی تھی اُس عرضی پرسپریم کورٹ میں شنوائی ہوئی جس میں عدالت نے کہاکہ گنیش اتسو کو عیدگاہ میں نہ منایاجائے بلکہ دوسری جگہ پر یہ تہوار منایاجائے اور ساتھ ہی ساتھ دونوں فریقین کو اسٹیٹس کو اختیارکرنے کا حکم دیاہے۔قریب دوگھنٹوں کی طویل بحث کے بعد عدالت نے یہ فیصلہ سُنایاہے۔گنیش اتسو منانے کیلئے کرناٹکا ہائی کورٹ اور حکومت کےفیصلے کے خلاف کرناٹکا وقف بورڈنے سپریم کورٹ میں عرضی دائرکی تھی جس میں وقف بورڈنے بتایاکہ یہ املاک عیدگاہ کی ہے جو وقف بورڈ کے ماتحت ہے،اس تعلق سے سپریم کورٹ میں فوری شنوائی شروع کی گئی جس میں چیف جسٹس یویو للت اور جسٹس ایس رویندربھٹ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے معاملے کو سنجیدگی سے سُنا اور کہاکہ گنیش اتسوعیدگاہ میدان میں نہ منایاجائے۔دوران سماعت ایڈوکیٹ کپل سبل نے کہا کہ ۲۰۰سال سے یہ ملکیت ہمارے پاس ہے اور کسی دوسرے طبقہ نے یہاں کبھی کوئی مذہبی تقریب منعقد نہیں کی، پھر آج یہ کیوں ہو رہا ہے۔ کپل سبل نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ ہمارے حق میں فیصلہ سنا چکا ہے۔ پہلے کبھی کسی نے اسے چیلنج نہیں پیش کیا، لیکن اب ۲۰۲۲میں کہا جا رہا ہے کہ یہ متنازعہ جگہ ہے۔سینئر وکیل کپل سبل نے سہ رکنی بنچ کے سامنے اپنی دلیل پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ۲۰۲۲میں کارپوریشن نے اسے متنازعہ بتاتے ہوئے اس پر گنیش اُتسو منانے کی رضامندی دے دی۔ یہ اسٹیٹ ۱۹۶۵میں بھی دستاویزات کے مطابق وقف بورڈ کی ملکیت ہے۔ سبل کے مطابق کمشنر کی رپورٹ کی بنیاد پر گنیش اُتسو کی اجازت دی گئی، جب کہ اس گراؤنڈ سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہے۔ سبل نے کہا کہ۱۹۶۴ میں جسٹس ہدایت اللہ نے ہمارے حق میں حکم دیا تھا۔ یہ وقف ایکٹ کے تحت وقف کی ملکیت ہے۔ ۱۹۷۰میں بھی ہمارے حق میں حکم امتناع دیا گیا تھا۔ وقف ہونے کے بعد چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اب وقف کی زمین تنازعہ کی زد میں ہے۔ ۲۰۲۲میں وہ اچانک بیدار ہوئے ہیں۔سماعت کے دوران جسٹس ابھے ایس اوک نے پوچھا کہ کیا پہلے یہاں کوئی مذہبی سرگرمی ہوئی ہے؟ اس پر سبل نے کہا کہ کبھی نہیں۔ پھر جسٹس سندریش نے پوچھا کہاس معاملے میں آپ کا اعتراض کیا ہے؟ جواب میں سبل نے کہا جو اجازت دی گئی ہے، وہ صرف رمضان اور عیدالاضحیٰ سے متعلق ہے۔ اب ہائی کورٹ کا حکم ہے کہ برائے کرم سبھی تہواروں کی اجازت دیں۔ جسٹس سندریش نے پوچھا صرف کل کے لیے مجوزہ تہوار کے خلاف شکایت ہے یا اس کے بعد کے لیے بھی استعمال کیا جانا ہے؟ اس پر مکل روہتگی نے کہا کہ کارپوریشن مالک نہیں ہے اور یہ ریاستی حکومت کی ملکیت ہے۔ اس کے جواب میں سبل نے کہا کہ جب تک یہ وقف کی ملکیت ہے، تب تک آپ ملکیت کا دعویٰ نہیں کر سکتے ہیں۔ کیونکہ وقف نوٹیفکیشن کو کبھی بھی کسی بھی سطح پر چیلنج نہیں کیا گیا۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر