Latest News

گجرات دنگا، بلقیس اور سرکاری رویہ۔حسام صدیقی۔

گجرات دنگا، بلقیس اور سرکاری رویہ۔
حسام صدیقی۔
اداریہ
جدید مرکز، لکھنؤ
مؤرخہ ۴ تا ۱۰ ستمبر، ۲۰۲۲۔
ستائیس فروری۲۰۰۲ کو گودھرا اسٹیشن پر ہوئے دل دہلانے والے شرمناک واقعہ کے بعد گجرات کے کئی حصوںخصوصاً احمد آباد اور گودھرا کے باہری حصوں کی بستیوں میں مسلم مخالف فساد پھوٹ پڑا، پولیس کہیں خاموش تماشائی بنی رہی تو کہیں دنگائیوں کا ساتھ دیتی نظر آئی۔ ہفتوں چلے تشدد میں مارے جانے والوں کی تعداد آج تک کسی کو معلوم نہیں ہوسکی۔ سرکار کی جانب سے مارے جانے والوں کی تعداد کبھی ایک ہزار دو سو تو کبھی اس سے کچھ زیادہ بتائی گئی غیر سرکاری ذرائع نے مارے جانے والوں کی تعداد تین سے پانچ ہزار تک بتائی۔ سوال مارے جانے والوں کی تعداد کا جتنا اہم ہے اس سے کہیں زیادہ اہم سوال مارے جانے کے طریقوں کا ہے۔ انتہائی بے رحمی کے ساتھ معصوم بچوں، نوجوانوں اور خواتین کو مارا گیا۔ اس کے باوجود سرکار کا رویہ مارے جانے والوں کے ساتھ ہمددی کا رہنے کے بجائے شروع سے ہی مارنے والوں کے سا تھ ہمدردی کا رہا ہے۔اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی تھے اور وزیرداخلہ تھے امت شاہ جو آج ملک کے وزیرداخلہ ہیں۔ دنگوں کے سلسلے میں سرکار کا جو رویہ ۲۰۰۲ میں طئے ہوا تھا وہ ابھی تک جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رویہ مودی اور امت شاہ کا ہی طئے کیا ہوا رہا ہوگا۔
گودھرا واقعہ کے بعد نرودا پاٹیا سے لے کر ریاست کے کئی اضلاع کے گاؤں تک میںمسلمانوں کو جس بے رحمی سے مارا گیا وہ طریقہ عام دنگوں کا نہیں تھا۔ مثلاً بلقیس کی تین سال کی بیٹی صالحہ کو پیر سے پکڑ کر زمین پر پٹخ کر مار دیا گیا۔ بلقیس اپنی بچی کی جان کی بھیک مانگتی رہی لیکن درندوں کو اس پر رحم نہیں آیا۔ بلقیس کے کنبے کی ایک خاتون نے جان بچانے کے لئے بھاگتے وقت ایک بچی کو جنم دیا۔ اس بچی کو بھی مار دیا گیا۔ نرودہ پاٹیا میں ایک حاملہ عورت کا پیٹ پھاڑ کر اس میں پل رہے بچے کو نکال کر تلوار کی نوک پر ٹانگا گیا پھر اسے آگ میں پھینک دیا گیا۔ اسی نرودہ پاٹیا میں درجنوں لوگوں کو کنوئیں میں پھینکا گیا، پھر اس میں پیٹرول ڈال کر آگ لگادی گئی۔ تلوار سے کا ٹ کر اور پیٹ پیٹ کر مارنے کے تو سیکڑوں واقعات ہوئے، سابق راجیہ سبھا ممبر احسان جعفری سمیت ان کی گلبرگ سوسائٹی میں رہنے والے کئی لوگوں کو کاٹا گیا۔ پھر مرنے سے پہلے ہی انہیں جلا دیا گیا۔ اتنا ظلم کوئی عام ہندو کرہی نہیںسکتا۔ یہ جو بے رحمی دکھائی گئی اس کا واحد مقصد گجرات کے مسلمانوں کو یہ سبق سکھانا تھا کہ اگر گودھرا جیسی حرکت کوئی مسلمان کرے گا تو مسلمانوں کو اسی طرح سخت سبق سکھایا جائے گا۔ ملک میں بہت سے دنگے ہوئے ہیں لیکن دنگوں کا یہ طریقہ کہیں نہیں دیکھا گیا کہ دنگائیوں سے گھرے احسان جعفری پولیس کمشنر سے ا پنے تھانے تک اور کہا تو یہ بھی گیا کہ اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو مدد کے لئے فون کرتے رہے لیکن انہیں کوئی مدد نہیں ملی۔
یہ سرکار کا مسلم مخالف رویہ ہی تھا کہ بلقیس بانو کو جب ایک آدیواسی خاتون اپنے کپڑے پہنا کر تقریباً پانچ گھنٹے بعد کھیت سے اٹھاکر تھانے لے گئی تو وہاں موجود داروغہ نے ایسی دفعات میں مقدمہ لکھا کہ کسی ملزم کے خلاف کوئی کاروائی ہی نہ ہوتی بعد میں سی بی آئی نے اس داروغہ کو بھی ملزم بنایا اور عدالت نے اسے تین سال کی سزا دی۔ اسی معاملے کی تحقیقات پولیس نے کرکے کلوژر رپورٹ لگا دی کچھ لوگوں نے شور مچایا تو گجرات سی بی سی آئی ڈی کو معاملہ دیا گیا،سی بی سی آئی ڈی نے بھی کسی ملزم کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی، پھریہ معاملہ سپریم کورٹ پہونچا تب سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو یہ جانچ سونپی، سی بی آئی رپورٹ آئی تو بلقیس اور اس کے حامیوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ گجرات میں مقدمہ چلا تو سی بی آئی رپورٹ بھی بیکار ہوجائے گی، سپریم کورٹ نے مقدمہ گجرات کے بجائے مہاراشٹر میں چلانے کا آرڈر دیا۔ جج یو ڈی سالوی کی اسپیشل سی بی آئی کورٹ نے ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر گیارہ ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی ملزمان نے بامبے ہائی کورٹ میں اپیل کی توہائی کورٹ نے بھی سزا برقرار رکھی۔ لیکن اب گجرات سرکار نے ضلع سطح کی ایک جیل ایڈوائزری کمیٹی بنا کر سپریم کورٹ تک کی پوری قواعد کو برباد کردیا اورسبھی گیارہ مجرم  آزادی کے ساتھ گھومتے ہوئے مٹھائیاں کھا رہے ہیں، ہار پھول پہنا کر ان کا استقبال کیا جارہا ہے۔
 صرف بلقیس بانو معاملہ ہی نہیں، مسلم مخالف دنگوں کے تقریباً سبھی معاملات میں گجرات سرکار رویہ دنگائیوں اور قاتلوں کے حق میں نظر آیا۔ بابو بجرنگی جیسا بدنام زمانہ دنگائی جیل سے باہر ہے۔ گجرات میں مودی کی وزارت میں وزیر رہی مایا کودنانی کی حمائت میں آج کے مرکزی وزیر داخلہ  امت شاہ باقاعدہ کورٹ میں گواہی دینے گئے تھے کہ جس وقت نرودہ پاٹیا کے دنگے میں مایا کودنانی پر دنگائیوں میں شامل ہونے کا الزام لگایا گیا ہے اس وقت وہ دنگے کی جگہ پر ہونے کے بجائے اسمبلی میں تھیں اور انہیں ملی بھی تھیں۔ کئی اسٹنگ آپریشن ہوگئے جن میںدنگائیوں کو یہ کہتے ہوئے صاف سنا گیا کہ انہوں نے کتنے مسلمانوں کو مارا لیکن چونکہ پولیس اور سرکار کی انہیں حمائت حاصل تھی اس لئے ان کا کچھ نہیں بگڑا۔ یہ مدد کاہی نتیجہ ہے کہ دنگوں کے سلسلے میں جتنے بھی مقدمات درج ہوئے تھے تقریباً سبھی کے ملزمان سرکاری وکیلوں کی مدد سے یا تو چھوٹ گئے یا معمولی سزا کاٹ کر باہر آگئے۔ گودھرا اسٹیشن کے شرمناک واقعہ میں جو ملزم تھے تقریباً سبھی کو سخت سزا ہوئی، ہونی بھی چاہئے تھی کیونکہ و ہ انتہائی انسانیت دشمنی ا ور بے رحمی کا واقعہ تھا لیکن وہاں بھی اصل ملزمان کے ساتھ بڑی تعداد میں بے گناہوں کو بھی پھنسا دیا گیا۔ ان بے گناہوں کے لئے نہ کوئی جیل ایڈوائزری کمیٹی بن رہی ہے، نہ کوئی ان کی پیروی کررہا ہے کیونکہ جو کوئی پیروی کرنے جاتا ہے اسے سرکار اور ہندو دشمن سمجھ لیا جاتاہے۔
گودھرا واقعہ کے ذمہ داران کے ساتھ ساتھ ایسے کئی لوگو ں پر گجرات سرکار کاروائی کرکے جیل بھیج چکی ہے۔ جن لوگوں نے گجرات دنگوں کو دنیا کے سامنے لانے کا کام کیا تھا۔کاروائی کی وجہ یہ ہے کہ شروع سے ہی گجرات سرکار کا ماننا ہے کہ دنگوں کی خبروں کو بڑھا چڑھا کر دنیا کے سامنے پیش کرکے لوگوں نے گجرات، وہاں کی سرکار اور اس وقت کے وزیراعلیٰ کو بدنام کرنے اور ان کی امیج خراب کرنے کی سازش کی تھی۔ ابھی بھی وزیراعظم مودی تین دنوں کے گجرات دورے پر گئے تھے تب بھی انہوں نے کہا کہ گجرات کو بدنام کرنے کی بڑی سازشیں ہوئیں۔ لیکن گجرات ترقی کے را ستے پر آگے ہی بڑھتا رہا ہے۔ مشہور سماجی کارکن تیستا سیتلواڑ احسان جعفری کی بیوی ذکیہ جعفری کو سپریم کورٹ لے گئیں وہ گجرات اور وزیراعظم کو بدنام کرنےکے لئے جھوٹے ثبوت پیش کرنے کے الزام میں جیل میں ہیں دو آئی پی ایس افسران سنجیو بھٹ اور آربی شری کمار نے کہا تھا کہ گودھرا واقعہ کے بعد وزیراعلیٰ(مودی) کے یہا ں ہوئی میٹنگ میں طئے ہوا تھا کہ کم سے کم دو دنوں تک ریاست کے ہندوؤں کو گودھرا سے پیدا ہوئے غصہ کو نکالنے کی چھوٹ دی جانی چاہئے۔اسی فیصلے کے بعد اضلاع کی پولیس کو ہدائت دی گئی کہ وہ دنگائیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرے۔ دونوں پولیس افسران کے اس بیان میں کتنی سچائی ہے یہ تو وہی دونوں جانتے ہیں یا اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی اور اس میٹنگ میں شامل افسران لیکن غلط بیانی کرنے کے الزام میں شری کمار اور سنجیو بھٹ دونوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ ۲۰۰۲ کے گجرات دنگوں کے دوران ملک کے تمام پرائیویٹ ٹی وی چینلوں نے کئی کئی گھنٹے کے پروگرام روز دکھائے تھے۔ اب ایک این ڈی ٹی وی انڈیا کے علاوہ باقی سبھی چینل پی ایم مودی کے خوشامدیوں میں شامل ہوچکے ہیںمودی سرکار ان پر مہربان بھی ہے۔ اگر دنگے کی حقیقت دنیا کے سامنے لانے و الوں نے گجرات کو بدنام کرنے کی سازش کی تھی تو ان چینلوں کے خلاف سخت کاروائی کیوں نہیں، سرکار ان پر مہربان کیوں ہے؟

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر