Latest News

مرتد وسیم تیاگی جیل رسید، ہندو بننا بھی کام نہیں آیا۔

مرتد وسیم تیاگی جیل رسید، ہندو بننا بھی کام نہیں آیا۔
شکیل رشید۔ 
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز) 
مرتد وسیم رضوی تیاگی پھر جیل رسید ہوا۔
ہندو ہونا بھی اس کے کچھ کام نہ آیا ، اور نہ ہی آئندہ کام آئے گا ۔ میں یہ بات کوئی ہوا میں نہیں کہہ رہا ہوں ، یہ بات سامنے آنے والے  حقائق کی بنیاد پر کہی جا رہی ہے ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ ’’ زہریلی اور نفرت بھری تقریریں ‘‘ ٖصرف مرتد تیاگی ہی نے نہیں کی تھیں ، ان میں یتی نرسنہا نند گری ، مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کی پجارن سادھوی انا پورنا عرف پوجا شکن پانڈے ، ہندو رکشھا سینا  کا مکھیاسوامی پربودھانند گری اورسدرشن ٹی وی کا سنپادک ، سنگھی اشوک چوہانکے بھی شامل تھا ، مزید کئی لوگ تھے ، لیکن لمبی جیل ہوئی تو صرف مرتد تیاگی کو ، اور اب پھر جو جیل جارہا ہے وہ مرتد تیاگی ہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ مرتد تیاگی ہی کیوں جیل میں اور باقی کیوں آزاد ؟ کیا دوسروں کی تقریریں کچھ کم زہریلی تھیں؟ ہم گھوم کر ہریدوار چلے چلتے ہیں جہاں 17 تا 19، دسمبر2021 ’’ اسلامی دہشت گردی اور ہماری ذمہ داریاں ‘‘  کے موضوع پر ایک ’ دھرم سنسد ‘ کا اہتمام کیا گیا تھا ، جس میں ’ سادھوؤں اور سنتوں ‘ کے ذریعے ، ملک کو ’ ہندو راشٹر ‘ میں تبدیل کرنے اورمسلمانوں کےقتلِ عام کے لیے ، ہندوؤں کو ہتھیار اٹھا لینے کی ترغیب اور دھمکی دی گئی تھی ۔ اس معاملہ میں ، پولیس نے مرتد جتیندر نارائن تیاگی عرف وسیم رضوی اورچند ’ نامعلوم افراد ‘ کے خلاف مقدمہ دائرکیا تھا ، حالانکہ وہ ،جو ’ قتلِ عام ‘ کی دھمکیاں دے رہے تھے ، وہ جو ’ قتلِ عام ‘ کے لیے لوگوں سے ’ قسمیں ‘ لے رہے اور نعرے لگوا رہےتھے ، بالکل ’ نامعلوم ‘ نہیں تھے ، لیکن اتراکھنڈ پولیس نے مقدمہ میں ، صرف ایک نام جتیندر تیاگی عرف وسیم رضوی  کاشامل کیا تھا ، باقی جو دھمکیاں دے رہے تھے انہیں ’ نامعلوم ‘ قرار دے دیا تھا ، یعنی سب کو بخشنے ک پوری تیاری تھی ! یہ تو بعد میں ، جب ملک اور بیرون ممالک سے شدید رد عمل آنے شروع ہوئے ، تو 2 جنوری 2022 کو یتی نرسنہا نند گری اور دھرم سنسد کے دیگر منتظمین کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی گئی ، اور 16 جنوری 2022 کو یتی نرسنہا نند گری کو گرفتار کیا گیا ۔ دہلی میں ایک ایسے ہی ہروگرام میں زہریلی تقریر کرنے کے لیے چوہانکے پر بھی معاملہ درج کیا گیا ۔ لیکن یہ سب آج آزاد ہیں اور مرتد تیاگی پھر جیل رسید کر دیا گیا ہے ۔ کیوں ؟ شاید لوگوں کو  اس کے ہندو ہونے پر یقین نہیں آرہا ہے ، لوگ اسے ہندو ہونے کے بعد بھی شاید مسلمان ہی سمجھ رہے ہیں ، اس لیے ۔ مرتد تیاگی کو طبّی بنیادوں پر سپریم کورٹ سے ضمانت ملی تھی ، لیکن وہ ضمانت کی مدّت ختم ہونے کے بعد بھی جیل جانے کو تیار نہیں تھا ، سپریم کورٹ نے جب اس کی سخت سرزنش کی تو اسے سرینڈر کرنا پڑا ۔ 
مرتد تیاگی کی حالت دیکھ کر محاورہ ’ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا ‘ یاد آ رہا ہے ۔ لوگ خوب جانتے ہیں ،کہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی اور زہریلے بیانات یا بالفاظ دیگر ’ ہیٹ اسپیچ ‘ سمیلن کا منتظم یتی نرسنہا نند گری ، وسیم رضوی کو مرتد بنانے میں پیش پیش تھا ۔ لوگوں نے دیکھا ہی ہوگا کہ غازی آباد کے ، گری ہی کے مندر میں وسیم رضوی نے پوجا پاٹ کر کے مرتد بننے کا اپنا عمل پورا کیا تھا ۔ گری نہ جانے کتنی بار مسلمانوں کو قتلِ عام کی دھمکیاں بھی دے چکا ہے اور مذہبِ اسلام کی توہین بھی کر چکا ہے ۔ یہ وہی نرسنہا نند ہے جس نے ، دہلی میں ، وہاں کے اسمبلی الیکشن سے کچھ پہلے ، جنوری 2020ء میں ایک دھرم سنسد کا انعقاد کیا تھا ، خوب زہر اگلا تھا ، اور نتیجتاً فروری 2020ء میں دہلی کو مسلم کش فسادات نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔ دھرم سنسد میں گری کا زور اس پر تھا کہ مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ حل نہیں ہے ، حل ہتھیار اٹھا لینا ہے ، اس کے بغیر کوئی فرقہ محفوظ نہیں رہ سکتا ، زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کیے جائیں اور بہتر سے بہتر ہتھیار رکھے جائیں ۔ اسی دھرم سنسد میں نرسنہانند نے نعرہ دیا تھا ’’ شاشتر میو جئتے ‘‘۔ گری نے ہندو پربھاکرن ، ہندو بھنڈران والا اور ہندو شابیک سنگھ بننے والے کو ایک کروڑ روپیہ انعام دینے کا اعلان کیا تھا ۔ گری نے کہا تھا کہ بھارت بڑی تیزی کے ساتھ ’ اسلامک اسٹیٹ ‘ بن رہا ہے اس لیے اسے جلد سے جلد ’سناتن ویدک راشٹر ‘ بنایا جائے ۔ اس کا آسان زبان میں مطلب ہے ہندوستان کو  ’ ہندو راشٹر ‘ بنایا جائے ۔ اس سنسد میں مہاتماگاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کی پجارن سادھوی انا پورنا عرف پوجا شکن پانڈے نے مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے اکساتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آپ ان کی آبادی کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ماردو ، مارنے اور جیل جانے کے لیے تیار رہو ۔ اس دھرم سنسد میں اتراکھنڈ میں نفرت کی لہر پھیلانے والا سوامی پربودھانند گری بھی شامل تھا ، اس نے کہا تھا ، کہ میانمار اور دہلی میں ہندوؤں کے سر قلم کیے گیے ، لٹکایا گیا ، اس لیے ہندو بھی مرنے مارنے کے لیے تیار ہو جائیں ۔ سوامی نے کہا کہ میانمار کی طرح یہاں کے لیڈر ، فوج اور ہر ہندو یہاں ہتھیار اٹھا لے ۔ یہ وہ پربودھا نند ہے جو یو پی کے وزیراعلیٰ یوگی کے ساتھ کئی بار تصویروں میں دیکھا گیا ہے ، مطلب بی جے پی سے اس کا بڑا قریبی رشتہ ہے ۔ یہ سوامی پہلے بھی اشتعال انگیزی کر چکا ہے ، اس نے کہا تھا کہ ہندوؤں کو چاہیے کہ وہ آٹھ بچے پیدا کریں ، اس نے کہا تھا کہ مسلمان ہی ہیں جو ہندو عورتوں کی عصمت دری کرتے ہیں ۔ اور اسی نے ’ لو جہاد ‘ کے نام پر مسلمانوں کے خلاف شرانگیز مہم چلائی تھی ۔ ایک اور دھرم گرو سوامی آننداسوروپ بھی تھا ، جس نےمنچ سے مسلمانوں کی نسل کشی کا زوردار پرچار کیاتھا ۔ اشوک چوہانکے نے بھی اشتعال انگیزی کی تھی ۔ اس نے دہلی میں 19 ، دسمبر کو ایک پروگرام کیا تھا ، مقصد لوگوں کو ’ ہندو راشٹر ‘ کے قیام کے لیے لڑنے اور مرنے مارنے پر تیار کرنا تھا ۔ اس نے لوگوں کو حلف دلوایا تھا کہ ’’ اس دیش کو ہندو راشٹر بنانے ، اور ہندو راشٹر بنائے رکھنے کے لیے ، ضرورت پڑنے پر ہمیں لڑنا ، مرنا اور مارنا پڑے گا ۔‘‘ لیکن یہ سب آج ، یا تو ضمانت پر یا ، بغیر کسی ایف آئی آر کے آزاد ہیں ، جیل گیا ہے تو مرتد تیاگی گیا ہے ۔ اسی لیے میں نے ابتدا میں یہ لکھا ہے کہ’’ ہندو ہونا بھی اس کے کچھ کام نہ آیا ، اور نہ ہی آئندہ کام آئے گا ۔ ‘‘ سچ کہا جائے تو مرتد  وسیم رضوی قربانی کے لیے ایک ’ بد جانور ‘ کی طرح ہے ، اور اُسے خود اس کا ندازہ ہو گیا ہے اسی لیے اُس نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ خودکشی کرنے کی سوچ رہا ہے ۔ اس کا خود یہ کہنا ہے کہ اسے جو پیار اور محبت ملنی چاہیے تھی ، نہیں ملی ہے ۔ مطلب یہ کہ اس کا ہندو بننا اس کے کسی کام نہیں آیا ہے ۔ لیکن وہ کہتے ہیں نہ کہ ’ کتّے کی دم ٹیڑھی کی ٹیڑھی رہتی ہے ‘ یہ سناتن دھرم کی جئے جئے کار کیے جا رہا ہے ۔ کر بھی کیا سکتا ہے ، ساری کشتیاں تو اس نے جلا دی ہیں ۔
ایک خبر اور ہے ؛ مرتد رضوی کی گستاخانہ کتاب ’’ محمد ﷺ ‘‘ پر پابندی لگانے سے سپریم کورٹ نے انکار کر دیا ہے ۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ’’ آپ ہم سے آرٹیکل 32 کے تحت مجرمانہ تحقیقات کا حکم دینے کو کہہ رہے ہیں ، جو ہم نہیں کر سکتے ، اگر ہم اس کی اجازت دیتے ہیں تو پھر مقدمے کی سماعت کے دوران کیا ہوگا ؟ ‘‘ مطلب یہ کہ مقدمے کا فیصلہ ہونے دیا جائے ۔ اس کتاب میں کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب سب ہی جانتے ہوں گے ، جو نہیں جانتے انہیں بتاتا چلوں کہ یہ کتاب ، رسول اکرم حضرت محمدﷺ کی شان میں ناقابلِ معافی گستاخی کا پلندہ ہے ۔ یہ گستاخی ہی ہے جس کے سبب ، مرتد تیاگی کو خودکشی کی سوجھ رہی ہے ۔ اور کوئی دن شاید اس کی خبر بھی آ جائے ۔ یہ کتاب جس قدر جھوٹ اور فریب سے بھری ہوئی ہے اُسی قدر اس میں اللہ کے آخری پیغمبرﷺ ، حضرت خدیجہؓ ، حضرت عائشہ ؓ، امِ ہانی ؓ ، و دیگر پر انتہائی شرم ناک تہمتیں لگائی گئی ہیں ۔ گستاخانہ کتاب کو پڑھ کر ہر باایمان مسلمان کا خون کھول اُٹھے گا ۔ مرتد تیاگی کی اس کتاب کا جواب کتاب لکھ کر دیا گیا ہے ۔ جامعہ قادریہ اشرفیہ ،ممبئی کے ایک عالمِ دین مولانا محمد ابراہیم آسی ؔ نے ، ’’ تحفظِ ناموسِ رسالت بورڈ ،ممبئی‘‘ کی ایما پر ’’ عظیم محمد ﷺ ‘‘ نام سے ایک کتاب لکھ کر کافی اور شافی جواب دیا ہے ۔ مرتد کی کتاب میں قرآن پاک پر بھی انگلی اٹھائی گئی ہے ، اس سے پہلے مرتد نےکئی بار قرآن پاک کو جھٹلایا بھی تھا ۔ اس نے قرآن پاک سے۲۶آیات حذف کرنے کے لیے ایک پی آئی ایل بھی ڈالی تھی جس میں اس کا کہنا تھا کہ ،
قرآنِ پاک تحریف سے پاک نہیں ہے ( نعوذ باللہ)
قرآنِ پاک میں تحریف صحابہ کرام ؓ نے کی ہے اس لیے انہیں امانت دار نہیں سمجھا جاسکتا ۔
قرآنِ پاک تشدد پر اکساتا ہے ۔
قرآنِ پاک کے تشدد کے درس کے نتیجے میں اسلام کو بزور طاقت پھیلایا گیا ہے ۔
قرآنِ پاک کی تعلیم چونکہ مدارس میں دی جاتی ہے اس لیے مدارس کے طلبا میں کٹّر پن آتا ہے ۔
مدارس سے اسی لیے آتنک وادی نکلتے ہیں ۔
یہ آتنک وادی ، مدارس کے یہ فارغین ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں ۔
مطلب یہ کہ مدارس کو بھی بند کیا جائے ۔
قرآنِ پاک چونکہ تشدد کا درس دیتا ہے اس لیے اس سے فرقہ پرستی پروان چڑھ سکتی ہے ۔
اور فرقہ پرستی پروان چڑھی تو ملک غیر محفوظ ہوسکتاہے ۔ 
گویا یہ کہ ایک جاہلانہ پی آئی ایل کے ذریعے ، یہ ملک کے سارے مسلمانوں اور ملک کے دیگر شہریوں کو ایک دوسرے کے مدّ مقابلِ کھڑا کرنے کی ایک شرمناک کوشش تھی ۔ یہ مسلکی تنازعے کو گرم کرنے کی بھی کوشش تھی ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مرتد تیاگی یہ چاہتا تھا کہ ملک کے مسلمان ، ہندو ، دیگر قومیں اور شیعہ وسُنّی ایک دوسرے کے مدّ مقابل آکھڑے ہوں ۔ کوشش کی گئی اور ہنوز کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں سے ان کی دوقیمتی متاع چھین لی جائیں ’ حبِ قرآن ‘ اور ’حبِ رسولﷺ ‘ ۔ اگر قرآن پاک کی محبت سے دل خالی ہوجائے تو مان لو کہ سارا ایمان گیا ، اس طرح اگر اللہ کے آخری رسول حضرت محمدﷺ کی توہین پر ہم خاموش رہے تو ہم مسلمان کہاں رہ گئے ؟ لہٰذا مرتد کو مسلمانوں نے جواب دیا ، اور آج بھی جواب دے رہے ہیں ۔ کتاب لکھ کر بھی اور عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا کر بھی ۔  جیسے مولانا ابراہیم آسی کی کتاب ’’ عظیم محمدﷺ ‘‘ آئی ہے ، اسی طرح  ’ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم ‘ اکل کوا ، کے صدر حضرت مولانا غلام محمد وستانوی کا انگریزی زبان میں بھیجا ہوا جواب بھی ہے ، جس میں قرآن پاک پر کیے گیے اعتراضات کا جواب ہے ۔  حضرت مولانا نے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’سچ یہی ہے کہ قرآنِ پاک کُل انسانیت کے لیے آخری قانون الہٰی ہے ، جسے اللہ رب العزت نے نازل کیا اور قادرِ مطلق اللہ علیم وخبیر ہی اس کا محافظ ہے ۔ اللہ رب العزت نے اپنی ہمیشہ باقی رہنے والی کتاب میں خود کہا ہے کہ ’میں نے ہی اسے اتارا اور میں ہی اس کی حفاظت کروں گا ‘۔‘‘ مولانا وستانوی نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ قرآنِ پاک میں نہ کسی نے تبدیلی کی نہ کوئی کرسکتا ہے ، لہٰذا اس سے باز رہا جائے ورنہ اللہ رب العزت خود ہی اس کی حفاظت کرلے گا ۔ اور اب اللہ پاک کی طرف سے ، قرآن پاک کی حفاظت کے لیے پکڑ آ گئی ہے ، مرتد جیل رسید ہوا ہے ، اس کے ساتھی ،جو پیدائشی ہندو ہیں آزاد ہیں ، اور مرتد سوچ رہا ہے کہ خودکشی کر لے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر