Latest News

حافظی بک ڈپو کے مالک مرحوم واصف عثمانی با اصول شخصیت اور نیک نام تاجر تھے۔

حافظی بک ڈپو کے مالک مرحوم واصف عثمانی با اصول شخصیت اور نیک نام تاجر تھے۔

تحریر : بدرالاسلام قاسمی 
استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند۔
"دیوبند" بلا شبہ پورے جہاں میں معروف و مشہور ہے، اس کی تاریخ اور یہاں کی عبقری شخصیات کے کارنامے ہمہ وقت اس کے امتیاز کی شہادت دیتے ہیں، بقول مولانا ریاست علی بجنوری "گہوارۂ علم و ہنر اور شہ پارۂ تاریخ" دارالعلوم دیوبند ہی وہ مرکز عقیدت ہے جس کی بنیاد پر اس معمولی قصبے کو عالمی شہرت حاصل ہوئی. دارالعلوم جوں جوں ترقی کرتا گیا، طلبہ کا جوق در جوق رجوع جیسے جیسے بڑھتا گیا، ویسے ویسے اس کے لوازمات دارالعلوم کے ارد گرد فروغ پاتے رہے، چنانچہ آج دیوبند ہر اہل علم، بلکہ ہر دیندار اور بالخصوص دارالعلوم کے قدیم و جدید فیض یافتگان کے لیے نہایت پرکشش بستی ہے، اس قصبہ کے علاوہ کہیں کوئی اجلاس، کانفرنس یا دینی پروگرام ہو وہاں اکثر و بیشتر مقامی علماء ہی نظر آتے ہیں، لیکن اگر ایسا کوئی پروگرام دیوبند میں ہونے لگے تو آپ کشمیر سے تمل ناڈو و کیرل اور گجرات سے منی پور و آسام، پورے ہندوستان کے ہزاروں علماء کو موجود پائیں گے، جن میں سے اکثر کی وجہ آمد وہ پروگرام نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنی اس مادر علمی کی سرزمین کی کشش میں کھنچے چلے آتے ہیں، نیز ایک بڑی تعداد اپنی دیگر ضروریات مثلاً کتابوں، ٹوپی، صدری، کپڑے، عطر وغیرہ کی دکانوں، شوروم اور بڑے شہروں کو ٹکر دیتے عمدہ ہوٹلوں میں نظر آتی ہے.
خیر بات ذرا دور چل نکلی، ہم دارالعلوم کے ارد گرد طلبہ و علماء کی ضروریات پر مشتمل تجارت کا ذکر کر رہے تھے، ظاہر سی بات ہے کہ ان کی سب سے بڑی ضرورت عربی و اردو، درسی و غیر درسی کتابیں تھیں، چناں چہ قدیم فارغین کی زبانی سننے کو ملتا ہے کہ یہاں اس وقت چند نامور کتب خانے ہوا کرتے تھے، مثلاً کتب خانہ رحیمیہ، کتب خانہ امدادیہ، کتب خانہ اعزازیہ وغیرہ. زمانہ آگے بڑھتا رہا اور طلبہ کا رجوع بھی، اس کے ساتھ ساتھ دیوبند میں چھوٹے بڑے مدارس و جامعات بھی قائم ہوتے گئے. ظاہر ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ کتب خانوں کی تعداد بھی دیوبند میں بڑھتی رہی، جو کتب خانے کل تک کرائے کی دکانوں پر محض سول ایجنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے اب وہ اپنی خود کی حیثیت قائم کر چکے تھے، چنانچہ زکریا بک ڈپو، اشرفی بک ڈپو، مکتبہ تھانوی، کتب خانہ نعیمیہ، دارالکتاب، فیصل پبلی کیشنز، کتب خانہ حسینیہ، مکتبہ ملت، مکتبہ حجاز، مکتبہ البلاغ وغیرہ(واضح رہے کہ دیوبند میں چھوٹے بڑے ناشرین کی تعداد پچاس سے زائد ہے، سب کا نام لینا یہاں ممکن نہیں) پورے ہندوستان بلکہ بیرون ہند بھی اپنی مطبوعات کے حوالے سے شہرت پا چکے تھے، ہر مکتبہ کی اپنی شناخت اور اپنا حلقۂ خرید و فروخت، تقریباً تمام کتب خانوں کا آپس میں کتابوں کا اپنی اپنی شرائط کے مطابق تبادلہ و خریداری. انہیں کتب خانوں میں ایک کتب خانہ ہے "حافظی بک ڈپو" جس کے مالک اور روح رواں جناب واصف عثمانی صاحب 11 اکتوبر 2022ء بروز منگل اچانک داغ مفارقت دے گئے اور نہ صرف تاجران کتب بلکہ پورے علاقے کو مغموم کر گئے، اس تحریر میں ان کا اور ان کے قائم کردہ ادارہ کا مختصر تذکرہ مقصود ہے. 
محترم جناب واصف عثمانی مرحوم نہایت سنجیدہ، باوقار، اصول پسند، صاف گو اور متواضع شخصیت کے حامل تھے، ان کا ہمارے والد محترم مولانا محمد اسلام قاسمی مدظلہ سے بڑا قریبی تعلق تھا، وہ ان کے مخلص دوستوں میں تھے، چنانچہ بچپن کی یادداشت میں یہ محفوظ ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہمارے گھر آمد و رفت بھی رکھتے، چونکہ سرکاری (BSNL) ملازم تھے، اور پھر انھوں نے اپنا مکتبہ بھی قائم کر لیا تھا، چنانچہ دن کا نصف اول ملازمت اور نصف ثانی مکتبہ کی مصروفیات کی نذر ہوگیا، جس کی وجہ سے ان کا ہمارے گھر آنا جانا بھی کم ہو گیا، تاہم والد صاحب سے تعلقات جوں کے توں رہے اور ان دونوں کی روزانہ کی ملاقات اس "شاہی مجلس" میں ہو جاتی تھی جو بلا ناغہ بعد نماز عشاء فخر المحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری علیہ الرحمہ کی بیٹھک میں لگتی تھی، اس کے روح رواں تو شاہ صاحب ہی ہوتے، تاہم اراکین مجلس میں اہل علم و دانش، اساتذہ دارالعلوم وقف، اساتذہ معھد الانور ، معززین شہر، سیاست سے با خبر رہنے والے وغیرہ گویا ہر فن کے ماہرین موجود ہوتے، وہاں کے حاضرین بتاتے ہیں کہ اس مجلس میں حالات حاضرہ پر گفتگو ہوتی، کبھی کسی حکومتی اقدام کا تجزیہ ہوتا، کبھی کسی گمراہ کن بات کی تردید ہوتی، کبھی کسی خواب کی تعبیر مالہ و ما علیہ کے ساتھ بیان کی جاتی. مرحوم واصف عثمانی صاحب بھی اس مجلس کے روزانہ کے حاضر باش تھے، عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ عموماً وہ سنجیدگی سے سب کی باتیں سنتے اور کبھی اگر انھیں کوئی رائے دینی ہوتی تو اتنے ہی وقار کے ساتھ دیتے. چونکہ نہایت کم گو تھے اس لیے جملہ حاضرین مجلس بشمول شاہ صاحب بغور ان کی رائے سماعت فرماتے.
تجارت کیوں کی جاتی ہے؟ ظاہر ہے کہ ایک مومن کے پیش نظر اس عمل سے رزق حلال کا حصول ہوتا ہے، دیوبند میں کھلنے والے قدیم و جدید اکثر کتب خانوں نے طلبہ و مدارس کے علمی عروج و زوال اور مارکیٹ کی ڈیمانڈ کا پورا خیال رکھا ہے، چنانچہ یہ کاروباری سفر درسیات و عربی شروحات سے ہوتا ہوا اردو شروحات، بلکہ درسی کتابوں کے اردو نوٹس تک پہنچ چکا ہے، کیوں کہ ان کی تجارت کا تقریباً 90 فیصد مدارس کی طلب اور ان کے تقاضوں کے مطابق چلتا ہے. مجرم فقط مکتبہ والے نہیں، بلکہ وہ علمی انحطاط ہے جس نے کہیں نہ کہیں ہم سب کو متاثر کیا ہے، کتابوں کی جگہ موبائل نے لے لی ہے تو ایسے میں ناشرین کتب بھی کیا کریں، جب کہ اکثر بڑے دینی ادارے، تنظیمیں اور جماعتیں بھی کسی تحقیقی کتاب اور اس کے مؤلف کی حبہ برابر حوصلہ افزائی نہیں کرتیں. 
ایسے میں اگر آپ کو کوئی مکتبہ ایسا مل جائے جس کی نہ تو کوئی درسی کتاب ہو، نہ ہی شرح اور نہ ہی کوئی درسی نوٹ، لیکن پھر بھی کتابوں کی اس منڈی میں اس کی اپنی ایک حیثیت ہو تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ اس مکتبہ کے مالک کے پیش نظر فقط تجارت نہ تھی، بلکہ تجارت کے ساتھ ساتھ علمی و تحقیقی اور نادر و نایاب کتب کا احیاء تھا. جی ہاں! حافظی بک ڈپو اور اس کے مرحوم مالک دونوں اس علمی انحطاط کے دور میں قابل قدر ہیں.
جب تک حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیری علیہ الرحمہ باحیات رہے عموماً بھائی واصف مرحوم کتابوں کی اشاعت میں ان سے مشورہ کرتے، ان کی تقریظ کتاب میں شامل کرتے.
راقم کی معلومات کے مطابق مشہور و محقق عالم حضرت مولانا علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب کی کتابیں "آثار التنزیل، آثار الحدیث، مطالعہ بریلویت وغیرہ" دیوبند میں سب سے پہلے واصف بھائی نے ہی شائع کی، علاوہ ازیں وہ اپنے مکتبہ سے الفقہ الاسلامی و ادلتہ اردو، ازالۃ الخفا اردو، اسد الغابہ اردو، الاصابہ اردو، تاریخ ابن خلکان اردو، تاریخ طبری اردو، حلیۃ الاولیاء اردو، طبقات ابن سعد اردو، نزہۃ الخواطر اردو وغیرہ جیسی علمی و مستند کتابیں شائع کر چکے تھے.
راقم چونکہ اسی نشر و اشاعت کی دنیا سے دو اعتبار سے وابستہ ہے، ایک تو نور گرافکس جس کے تحت تقریباً بارہ تیرہ سالوں سے کتابوں کی کمپوزنگ اور سرورق ڈیزائننگ کا کام انجام دیا جاتا ہے، اور دوسرا یہ کہ اللہ کے فضل و کرم سے راقم اور دیگر احباب و کرم فرماؤں کا قائم کردہ مکتبہ النور دیوبند چار سال سے قائم ہے. ان دونوں مناسبتوں سے بھائی واصف سے میرا بارہا واسطہ پڑا، وہ ایک اصول پسند اور کم گو شخصیت کے حامل تھے، ڈیزائن بنوانے کے لئے جب بھی نور گرافکس آنا ہوتا پہلے کال کر کے وقت لیتے اور متعینہ وقت پر تشریف لاتے. معاملات بالکل صاف ستھرے رکھتے، ادھر کام مکمل اور ادھر رقم کی ادائیگی، بلکہ بعض مرتبہ ہماری کوتاہیوں پر تسامح سے بھی کام لیتے.
مکتبوں سے ان کا لین دین تین ماہ کا ہوتا، تین ماہ کے بعد حساب کرتے اور ہم چھوٹے تاجروں کے ساتھ سہولت کا معاملہ فرماتے.
چار بیٹیوں کے والد، محترم جناب واصف عثمانی صاحب آج ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن ان کی با اصول و منظبط زندگی، شبانہ روز جدوجہد کے معمولات اور صاف ستھرے معاملات والی حیات میں ہم چھوٹوں کے لیے سیکھنے کا بہت کچھ سامان ہے.
یہ فقط چند مشاہدات پر مشتمل کچھ تاثرات ہیں، ورنہ ان کی زندگی میں یقیناً بہت کچھ سیکھنے کو ہوگا جس کو اہل خانہ یا کوئی قریبی عزیز ہی منظر عام پر لا سکتا ہے. 
اللہ تعالٰی ان کی سیئات کو حسنات سے مبدل فرمائے، ان کی مغفرت کاملہ فرمائے اور ان کے جملہ اہل خانہ و متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے. آمین یا رب العالمین

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر