Latest News

اسلامو فوبیا کے جھوٹ کا پردہ چاک کرنا تمام سنجیدہ اور انسانیت دوست افراد کا فریضہ، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا ۳۱؍واں فقہی سیمینار اہم تجاویزکی منظوری کے ساتھ اختتام پذیر، بچیوں کی تعلیم اور عصری اداروں کے قیام پر زور۔

برہانپور: پریس ریلیز۔
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا اکتیسواں فقہی سیمینار برہانپور کی تاریخی سرزمین پر اختتام کو پہونچا، اس موقع پر اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ موجودہ حالات میں بہت ضروری ہے کہ مسلمان اسلامی ماحول کے ساتھ عصری تعلیم کے ادارے قائم کرے جس میں بنیادی اسلامی تعلیمات سے بچوں کو روشناس کرایا جائے اور ان کے لیے ایسا یونیفارم رکھا جائے جو اخلاقی قدروں سے بھی ہم آہنگ ہو اور صحت کے تقاضوں کو بھی پورا کرتا ہو، افسوس کی بات ہے کہ ہمارا ملک جس کو اس کے معماروں اور آزادی کے لیے قربانی دینے والے سپاہیوں نے سیکولرازم، بھائی چارہ اور وحدت میں کثرت کے اصول پر آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی وہاں نفرت کے سوداگر ایک خاص فکر کو غالب کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے نصاب تعلیم کوبھی اسی رنگ میں رنگنے کا تہیہ کرلیا ہے، انہوں نے متنازع ترانہ وندے ماترم اور سوریہ نمسکار پر مشتمل یوگا کو بچوں کی تربیت کا حصہ بنادیا ہے۔ اسلامی مقدس شخصیات اور ہندوستان کی مسلم تاریخ کو نصاب سے نکال دیا ہے یہ بات کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے اور اس کا حل یہی ہے کہ مسلمان اپنے طور پر عصری تعلیمی ادارے قائم کرے، بچیوں کی تعلیم پر توجہ دیں اور ان کے لیے گرلز اسکول قائم کریں تاکہ وہ محفوظ ماحول میں تعلیم حاصل کرسکیں۔مولانا رحمانی نے علماء، مذہبی قائدین اور منصف مزاج اسکالر سے اپیل کی کہ اسلام کے خلاف جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور اسلامو فوبیا کو ایک تحریک بنادیا گیا ہے، اس جھوٹ کا پردہ چاک کرنا تمام سنجیدہ اور انسانیت دوست لوگوں کا فریضہ ہے. لیکن مدارس اور علماء کو خاص طور پر اس کے لئے آگے بڑھنا چاہیے اور اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔اکیڈمی کے سکریٹری اوردارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے استاذفقہ وحدیث مولاناعتیق احمدبستوی قاسمی نے اکیڈمی کی طرف سے شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ اس وقت میں خاص طورسے حالات کی وجہ سے اورمیڈیاکی وجہ سے امت میں مایوسی پیداہورہی ہے ،آپ حضرات علماء کی ذمہ داری ہے کہ امت کواس مایوسی سے نکالنے کاکام کریں یہ وقت کی بہت اہم ضرورت ہے۔اس موقع پرملک بھرسے آئے ہوئے علماء کرام ومفتیان عظام نے سیمینارکے تعلق سے اپنے تاثرات کااظہارکیاجن میں مفتی نذیراحمدکشمیری،مفتی زیدمظاہری دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ،مفتی نذرتوحیدچتراجھارکھنڈ،مفتی عبدالرحیم قاسمی بھوپالی،مولاناسراج الدین رشادی تامل ناڈو،آسام کے سابق ایم ایل اے اورمعروف عالم دین مفتی عطاء الرحمن وغیرہ قابل ذکرہیں۔ اکیڈمی نے اس سہ روزہ سیمینار میں چار جدید موضوعات پر بحث کی، دیہاتوں میں نماز جمعہ کا قیام، اس سلسلے میں علماء اور ملی ذمہ داروں سے اپیل کی گئی ہے کہ جہاں مسلمانوں کے فتنہ ارتداد میں پڑنے یا گمراہ ہونے کا اندیشہ ہو وہاں ضرور جمعہ قائم کیا جائے، اور ائمہ حضرات پوری تیاری کے ساتھ وہاں موثر انداز میں بیان کریں تاکہ لوگ گمراہ کن فتنوں سے باخبر رہیں۔نکاح مسیار کے سلسلے میں کہا گیا کہ ہندوستان میں اس طرح کے نکاح کا کوئی رواج نہیں ہے، اسلام میں ایک مخصوص مدت کے لئے نکاح کا کوئی تصور نہیں ہے، نکاح ایک دائمی رشتہ ہے یہ بات بھی واضح کی گئی کہ لیو ان ریلیشن شپ حرام ہے اور مسلمانوں کے لئے اس سے اجتناب لازم ہے۔ ورچوئل کرنسی پر بھی بحث کی گئی لیکن محسوس کیا گیا کہ ابھی اس سلسلے میں تکنیکی معلومات نامکمل ہے اور قانونی صورت حال بھی غیر واضح ہے، اس لئے اس پر آئندہ غور کیا جائے گا۔واضح رہے کہ اس سیمینارمیں چاروں موضوعات پراہم تجاویزمرتب کرکے علمائے کرام ومفتیا ن عظام کی موجودگی میں متفقہ طورپر اس کومنظور کیاگیا۔سیمینارکے آخری نشست کی نظامت ممبئی کے مفتی اعظم مفتی سعیدالرحمان فاروقی قاسمی نے کی جب کہ حیدرآبادکے معروف اوربزرگ عالم دین مولانامفتی صادق محی الدین نظامی کی دعاپراجلاس کا اختتام ہوا۔دارالعلوم شیخ علی متقی کے استاذمفتی اظہرقاسمی نے مہمانان کرام کاشکریہ اداکیا۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر