Latest News

6 دسمبر کو ماضی کی نوحہ خوانی کے بجائے عزم مستقبل کے طورپر منائیں، بابری مسجد کی يوم شہادت پر کل ہند رابطہ مساجد کے نائب صدر مولانا عبداللہ ابن القمر الحسینی کا اظہار خیال۔

یوبند:سمیر چودھری۔
کل ہند رابطہ مساجد کے نائب صدر مولانا عبداللہ ابن القمر الحسینی نے پریس کو جاری اپنے ایک بیان میں کہاکہ ہندوستان میں مساجد کا آغاز وہیں سے ہوتا ہے جہاں سے مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو اتھا، ہندوستان کے چپہ چپہ میں مساجد کے بلند مینارے اور ان سے بلند ہونے والی صدا اللہ اکبر اس کا بیّن ثبوت ہے لیکن گزشتہ کئی سالوں سے برادرانِ وطن کے ایک محدود طبقہ نے مسلم مخالف نظریہ کو عام کرنے کا کام شروع کیا، جس نے دھیرے دھیرے اسلام اور اسلامی شعار اور اسلامی عبادت گاہوں سے نفرت پر مبنی ایک نظریہ قائم کر دیا۔ چنانچہ اس کا اظہار 6 دسمبر 1992ءکو برسوں سے صدائے تکبیر بلند کرنے والی بابری مسجد کی شہادت اور اس کے چند سال کے بعد اس پر رام مندر کی تعمیر کا باضابطہ آغاز اس کا حصہ ہے۔
مولانا نے کہا کہ مگر افسوس کی بات یہ اس گروہ میں دن بدن اتنا اضافہ ہو گیا کہ حکومت کے ساتھ ساتھ عدلیہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پائی اور اسی وجہ سے بابری مسجد جیسے معاملہ میں مسلم قائدین نے بھی عدالت کی صواب دید پر عدالت کے ہر فےصلہ کو قابل قبول قرار دےا۔چنانچہ عدالت نے اسی بنیاد پر بابری مسجد کی زمین نہ دے کر اس سے کئی گنا زیادہ زمین دوسرے مقام پر دینے کا حکم صادر فرمایا، جسے مسلمانوں نے خواہی نہ خواہی ملک کے امن و امان اور خیر سگالی اور عدالت کے وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے قبول کرلیا۔ 

فیض آباد روڈ پر پانچ ایکڑ آراضی مسلمانوں کو دیدیا، سپریم کورٹ کے آرڈر سے مسلمانوں کو حاصل شدہ اس آراضی کو برتنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج تین سال گذرنے کے باوجود وہ آراضی ایک بیابان کی طرح نظر آتی ہے۔ ہم نے اول مرحلہ میں اس کا مشورہ دیا تھا کہ اس آراضی پر عالی شان مسجد کے ساتھ ساتھ 500 بیڈ پر مبنی ایسا ہاسپٹل بنایا جائے، جس کا ٹائپ بومبے، ٹاٹا ہاسپٹل کے ساتھ ہوا اور 200 ہیڈ کا ڈیلوسز ہاسپٹل جو رفاہی ہو۔ بہت معمولی شرح پر معیاری علاج ہر کس و ناکس کے لئے آسان ہو اور ایک کلچرل سینٹر کا قیام بھی ہو۔
الحمد للہ مشورہ قبول بھی ہوگےا ہے۔ اس طرح حکومت سے عدالت کے حکم پر موصول شدہ اس آراضی کا صحیح استعمال ممکن ہو سکے گا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم دفاع میں اپنی ساری توانائی صرف کرتے ہیں۔ کیا ہمارے دل میں یہ داعیہ نہیں پیدا ہوتا کہ ہم اس جگہ ایسی عظیم الشان مسجد تعمیر کریں کہ جو عبادت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے لوگوں کے لئے زیارت کا سامان بھی ہو۔ ایک ایسا ہاسپٹل قائم کریں جس کے ذریعہ غریب و لاچار، یتیم، بیوہ، مسکین کا علاج امیر و وزیر کے نہج پر ہوسکے۔ 
مولانا نے کہا کہ آئیے اس 6 دسمبر سے ہم عہد کریں کہ بابری مسجد کے عوض ملنے والی اس آراضی کو پوری دنیا میں نمایاں مقام دلا کر رہیں گے اور اس کی تعمیر میں ہر شخص اپنی ذاتی صلاحیتوں کے ساتھ اپنی اپنی بساط کے مطابق حصہ لے گا۔ اگر ہماری قدیم شناخت بابری مسجد ہم سے لے لی گئی تو اس کے مقابل ایسی جدید تکنالوجی پر مبنی مسجد تعمیر کریں گے جو ہندوستان کی پہلی مسجد ہوگی۔ یاد رہے کہ تمام علمائ، ائمہ اور اکابر کا متفقہ فیصلہ ہے کہ حکومت وقت کی طرف سے کسی اراضی کے بدلے حاصل شدہ آراضی اس آراضی کے حکم میں ہے جس کے بدلے حاصل ہوئی ہے۔ اس طرح بابری مسجد علامتی طور پر تا قیام قیامت دنیا میں قائم رہے گی۔ ہر سال 6 دسمبر ماضی کی نوحہ خوانی سے گزارنے کے بجائے عزم مستقبل کا دن منائیں اور اس تاریخی دن 6دسمبر کو یوم سیاہ کے ساتھ روشن مستقبل کے لائحہ عمل کے لئے وقف کردیں۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر