Latest News

لو جہاد قانون کی آئینی حیثیت پر سپریم کورٹ میں اگلی سماعت ۳۰ جنوری کو، اقلیتی سماج کے خلاف پٹیشن میں درج کیئے گئے بیانات کوحذف کرنے کا چیف جسٹس کا حکم، جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن سماعت کے لیئے منظور، مرکزی حکومت کو نوٹس جاری۔

نئی دہلی: لو جہاد قانون کی آئینی حیثیت اور مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر ہورہے تبدیلی مذہب کے خلاف داخل پٹیشن پر آج سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت عمل میں آئی، چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس نرسہما اور جسٹس جے پی پاردی والا کے روبرو سماعت عمل میں آئی جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول اوردیگر پیش ہوئے۔دیگر فریقوں کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل، دشینت دوے، سی یو سنگھ، اندرا جئے سنگھ، ورندہ گروور ودیگر بھی پیش ہوئے۔مرکزی حکومت کی جانب سے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا پیش ہوئے۔ آج عدالت نے صرف جمعیۃ علماء ہند کی جانب س داخل پٹیشن پر نوٹس جاری کیا اور سماعت کے لیئے قبول کرلیا، جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن کا نمبر سول رٹ پٹیشن 40/2023 ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس آف انڈیا نے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے کی درخواست پرعرض گذار اشونی کمار اپادھیائے کے وکیل کو حکم دیا کہ اقلیتی سماج (مسلم اور کرسچن)کے خلاف پٹیشن میں درج کیئے گئے مواد کو حذف کیا جائے جس پر اس نے عدالت سے کہا کہ وہ عدالت کی حکم کی پاسداری کرکے متنازعہ مواد کو حذف کردیں گے۔جمعیۃ علماء ہند سمیت مختلف مسلم فریق نے ہندوستان کی مختلف ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے تبدیلی مذہب (لو جہاد) قوانین کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے جبکہ اشوینی کمار اپادھیائے نامی ایڈوکیٹ نے مفاد عامہ کی عرضداشت داخل کرکے عدالت سے درخواست کی ہیکہ وہ مسلمانوں اور کرسچنس کی جانب سے مبینہ جبراً کرائے جارہے تبدیل مذہب پر کارروائی کرے۔حالانکہ عدالت نے آج کوئی عبوری فیصلہ نہیں صادر کیا، عدالت نے اپنے روزنامہ میں نو ٹ کیا کہ لو جہاد قانون کی آئینی حیثیت چیلنج کرنے والی عرضداشتیں الہ آباد ہائی کورٹ میں 5، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ 7، گجرات ہائی کورٹ 2، جھارکھنڈ ہائی کورٹ 2، ہماچل پردیش ہائی کور ٹ 4، کرناٹک ہائی کورٹ میں 1/ پٹیشن زیر سماعت ہے لہذا جب تک فریق عدالت میں ٹرانسفر پٹیشن داخل نہیں کرتے عدالت سماعت شروع نہیں کرسکتی ہے جس پر کپل سبل نے کہا کہ اگلے چند دنوں میں ٹرانسفر پٹیشن داخل کی جائے گی۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے اپنے فیصلہ میں مزید تحریر کیا کہ لو جہاد قانون کی آئینی حیثیت چیلنج کرنے والی تین عرضداشتیں (سول رٹ پٹیشن) زیر سماعت ہے بشمول جمعیۃ علماء ہند جبکہ متعد مداخلت کار کی عرضداشتیں بھی داخل کی گئی ہیں جن پر عدالت سماعت کریگی۔چیف جسٹس نے مزید کاکہا کہ اگلی سماعت پر عدالت لو جہاد قانون کی چند شق پر گجرات ہائی کورٹ اور مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کی جانب سے دیئے گئے اسٹے پر سماعت کریگی،گجرات حکومت اور مدھیہ پردیش حکومت نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی ہے جس میں انہوں نے مرکزی حکومت کو بھی فریق بنایا ہے۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ تمام پٹیشن کو یکجا کیاجائے گا اور ان کو ان کی درخواست یعنی کے ریلیف کے مطابق سماعت کی جائے گی۔واضح رہے کہ ہندوستان کی پانچ مختلف ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے تبدیلی مذہب (لو جہاد) قوانین کی آئینی حیثیت کو جمعیۃ علماء ہندنے گذشتہ ہفتہ سپریم کورٹ آف انڈیا میں چیلنج کیا تھا، جمعیۃ علماء ہند نے آئین ہند کے آرٹیکل 32/ کے تحت مفاد عامہ کی پٹیشن داخل کی ہے۔صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کی جانب سے تازہ پٹیشن داخل کی گئی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ قوانین کو بنانے کا مقصد درحقیقت ہندو اور مسلمان کے درمیان ہونے والی بین المذہب شادیوں کو روکنا ہے جو کہ آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کے خلاف ہے اور اس سے شخصی آزادی بھی مجروح ہوتی ہے،جس کا التزام آئین میں موجود ہے۔عرضداشت میں مزید کہا گیاہیکہ کہ ان قوانین کے ذریعہ مذہبی اور ذاتی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی ہے اور برادران وطن میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے لہذا سپریم کورٹ کو مداخلت کرکے ریاستوں کو ایسے قوانین بنانے سے روکنا چاہئے نیز جن ریاستوں نے ایسے قوانین بنائے ہیں انہیں ختم کردیا جاناچاہئے۔عرضداشت میں مزید کہاگیا کہ لو جہاد قانون بنانے کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہیکہ بین المذاہب جوڑوں کو پریشان کیاجائے تاکہ ایسی شادیوں پر روک لگ سکے۔عرضداشت میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ لو جہاد قانون کے ذریعہ ایک بڑی تعداد میں مسلمانوں کو گرفتار کیاجاچکا ہے ا ور یہ سلسلہ جاری ہے لہذا مسلمانوں کے خلاف بنائے گئے اس غیر آئینی قانو ن کو ختم کرنا چاہئے نیز سپریم کورٹ کو تمام ریاستوں کو حکم دینا چاہئے کہ وہ ایسے قانون بنانے سے گریز کریں۔جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن میں اتر پردیش پروہیبشن آف ین لاء فل کنورژن آف ریلجن ایکٹ 2021، دی اترا کھنڈ فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2018، ہماچل پردیش فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2019، مدھیہ پردیش فریڈم آف ریلیجن ایکٹ2021 اور گجرات فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2021قوانین کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیاہے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر