Latest News

ذکر الٰہی تسکین قلوب کا باعث ہے ، جامع مسجد ککرولی میں منعقد اصلاحی مجلس میں مولانا معین الدین انبہٹوی کا خطاب۔

مظفر نگر:  خانقاہ عظیمیہ و مدرسہ خلیلیہ انبہٹہ پیر کے روح رواں مولانا معین الدین انبہٹوی نے مظفر نگر کے قصبہ ککرولی کی جامع مسجد میں ایک اصلاحی مجلس میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر آج کے معاشرے پر نگاہ ڈالی جائے تو ہر شخص پریشان حال دکھائی دیتا ہے۔ گھروں میں نحوستوں نے ڈیرے ڈال کر چین و سکون کو برباد کر رکھا ہے۔ ٹینشن، ڈیپریشن تو تقریباً ہر ایک کی بیماری بن چکا ہے۔ کاروبار میں تنگی ہوئی تو قرض کا سہارا لینا پڑا اور جب قرض لیا تو یہ الگ وبال جان بن گیا کہ اس کی ادائی کیسے ہوگی؟۔ادائیگی کا جب کوئی بندوبست نہ ہوسکا تو سود اور رشوت سے کام چلا کر اپنی روحانیت کا خود اپنے ہاتھوں سے قلع قمع کردیا۔ اس طرح اضطراب کو مزید تقویت ملی۔ سکون کی تلاش میں شراب کو فوقیت دی۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے معاشرہ گناہوں میں مبتلا ہوا۔ اور انہی گناہوں کے اثرات جب گھر میں داخل ہوئے تو سب کا چین و سکون چھین لیا، پھر جھگڑے اور فسادات روز کا معمول بنتے گئے۔ جب روحانی سکون کے متلاشی کو سکون میسر نہ ہوا تو پھر وہ آخری راہ کا چناؤ کرلیتا ہے۔
خودکشی کا پھندا یہ سوچ کر چوم لیا جاتا ہے کہ یہاں چین نہیں ملا، کیا معلوم وہاں راحتیں میسر آجائیں۔ خودکشی اسلام میں حرام ہے اور ظاہر ہے حرام کردہ احکام کو جب بندہ بہ خوشی گلے لگائے گا تو کیا آرام و سکون ملے گا ؟ بل کہ وہاں بھی بے سکونی اس کی منتظر ہوگی۔ کہا جاتا تھا کہ مغربی ممالک میں خودکشی عام ہے اور وہ اس سے بے خبر ہیں کہ وہ کس اضطراب کا شکار ہیں۔ لیکن اب تو مسلم ممالک میں بھی خودکشی کا رجحان بڑھتا چلا جارہا ہے۔ یہ بے سکونی، ٹینشن، ڈیپریشن، سب ذکر خداوندی سے دوری کا نتیجہ ہے۔
قرآن مجید میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ بے شک دل کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے۔ یعنی انسان پوری دنیا میں سکون کی تلاش کر لے، نہیں ملے گا۔ کیوں کہ حق تعالیٰ نے خود بتا دیا کہ دل کا سکون میری یاد میں ہے۔ جب دل میں سکون ہوگا تو ظاہراً بھی طمانیت جھلکتی نظر آئے گی۔ جو قلب میں یاد خدا بسائے گا وہ روحانی سکون پائے گا۔
قرآن مجید میں ارشاد الہی کا مفہوم ہے کہ شیطان نے اس پر غلبہ پایا اور اسے اللہ کی یاد سے غافل کردیا۔ اللہ کے ذکر سے دل کو پھیر کر شیطان انسان کو گناہوں سے ایسا کھلاتا ہے جیسا کہ بچے گیند کے ساتھ کھیلا کرتے ہیں۔

مولانا انبہٹوی نے مزید کہا کہ  لفظ ذکر عربی زبان کا ہے اور قرآن مجید میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ اس نصیحت نامے کو ہم نے ہی نازل کیا اور اس کی حفاظت کے ہم خود ہی ذمے دار ہیں۔ تو یہاں لفظ ذکر نصیحت کے معنی میں ہے۔ ایک جگہ فرمایا۔ تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا یہاں لفظ ذکر اللہ کی یاد کے معنی میں ہے۔ مومنین کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے ہیں۔ اللہ رب العزت خود سورۃ الاحزاب میں فرماتے ہیں، مفہوم : (مومنین کی صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا) اور بہ کثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں ان سب کے لیے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔
ذکر دو طرح سے کیا جاتا ہے لسانی ذکر جو باقاعدہ زبان سے ادا کیا جاتا ہے اور سنا بھی جاتا ہے۔ ایک قلبی ذکر کیا جاتا ہے جو دل میں ہوتا ہے اور ساتھ بیٹھا شخص بھی آواز نہیں سن سکتا، یہ ذکرِ خفی کہلاتا ہے۔ عموماً ہم کہیں خوب صورت منظر دیکھیں تو بے اختیار لب پر ماشاء اللہ، سبحان اللہ جاری ہو جاتا ہے۔ رب ذوالجلال کی قدرت پر اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ یہ ذکر لسانی میں شامل ہیں کیوں کہ ذکر زبان سے ادا ہو رہا ہے۔ ذکر قلبی میں یہ سہولت رکھی ہے کہ یہ چلتے، پھرتے، اٹھتے، بیٹھتے ہر وقت کیا جاسکتا ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: اللہ کا ذکر ایسی کثرت سے کیا کرو کہ لوگ تمہیں مجنوں کہنے لگیں۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو دنیا کے ساتھ اپنی آخرت بھی سنوار رہے ہیں۔ اور جن کے دل اللہ کے ذکر سے غافل نہیں ہوتے ان کی تو شان میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: حضرت ابوہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ قیامت کے دن اللہ جل شانہ بعض قوموں کا حشر فرمائیں گے کہ ان کے چہروں میں نور چمکتا ہوگا، وہ موتیوں کے منبروں پر ہوں گے۔ لوگ ان پر رشک کرتے ہوں گے۔ وہ انبیاء اور شہداء نہیں ہوں گے۔ کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! آپ ان کا حال بیان فرما دیجیے کہ ہم ان کو پہچان لیں۔ آپؐ نے فرمایا: وہ لوگ جو اللہ کی محبت میں مختلف جگہوں اور مختلف خاندانوں سے آکر ایک جگہ جمع ہوگئے ہوں اور اللہ کے ذکر میں مشغول ہوں۔ ایک جگہ فرمایا کہ جب جنت کے باغوں پر گزرو تو خوب چَرو۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! جنت کے باغ کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ ذکر کے حلقے۔ 
 آج ہمیں ذکر الٰہی کی طرف راغب ہونا چاہئے یہ وقت کی بھی ضرورت ہے اور شرعی بھی، مولانا ہی کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر