Latest News

۲۶ جنوری یوم جمہوریہ کا تاریخی پس منظر۔

پیش کردہ۔ ڈاکٹر تمیم احمد قاسمی چنئی ٹمل ناڈو۔ چیرمین۔آل تنظیم فروغ اردو 9444192513

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم
جمہوریت کی ابتدا 500 سال قبل مسیح ہوئی اور یہ نظریہ یونان میں فروغ پایا مگر چند وجوہات کی وجہ سے بہت شہرہ نہ حاصل کر سکا۔ چنانچہ ارسطو اور اس جیسے کئی دانش مند ہیں، جنہوں نے اس نظریے کو رد کیا۔ پھر یہ نظریہ دو ہزار سال تک دنیا کی نظروں سے اوجھل اور غائب رہا، پھر اٹھارویں صدی کے وسط میں اس کا دوبارہ احیاء اور نشأۃِ ثانیہ ہوئی، جمہوریت کی بہت ساری تعریفیں بیان کی گئیں ہیں، تاہم "ابراہیم لنکن"کی تعریف زیادہ قابل رہی۔ وہ کہتے ہیں:

"Government of the people by the people for the people" 
یعنی عوامی حکومت، عوام کے ذریعہ، اور عوام ہی کے لیے، یعنی جمہوریت ایک ایسا طرزِ حکومت ہے جس کی بنیاد ووٹوں پر ہوتی ہے، جمہوریت ایک ایسا طرزِ حکومت ہے جس میں ہر شہری مساویانہ حقوق رکھتاہے۔یوم جمہوریہ یہ وہ دن ہے، جب ہندوستان میں برطانوی تسلط کے خاتمے کے بعد آئین ساز اسمبلی
(Constituent Assembly)
اراکین کے ذریعے تیار کردہ آئین ہند کو اپنایا گیا تھا۔ یوں 26 جنوری 1950 سے ہندوستان میں آئین پر عمل آواری جاری ہے۔ تاہم یہ 26 نومبر 1949 کا دن تھا جب ہندوستانی آئین کو پہلی بار اپنایا گیا تھا۔ اسی لیے ہر سال ہندوستان میں 26 نومبر کو یوم آئین کے طور پر منایا جاتا ہے۔یوم جمہوریہ کی تاریخ:
دستور ساز اسمبلی وہ ادارہ تھا جس کا مقصد ہندوستان کے آئین کا مسودہ تیار کرنا تھا۔ اس کا پہلا اجلاس 9 دسمبر 1946 کو ہوا جس میں 207 اراکین نے شرکت کی جن میں نو خواتین بھی شامل تھیں۔ ابتدائی طور پر اسمبلی کے ارکان کی تعداد 389 تھی تاہم آزادی اور تقسیم ہند کے بعد 15 اگست 1947 کو یہ تعداد گھٹ کر 299 رہ گئی۔
ڈاکٹر بی آر امبیڈکر (Dr BR Ambedkar) کی قیادت میں مسودہ سازی کمیٹی دستور ساز اسمبلی کی 17 سے زیادہ کمیٹیوں میں سے ایک تھی۔ ڈرافٹنگ کمیٹی کا کام ہندوستان کے لیے آئین کا مسودہ تیار کرنا تھا۔ کمیٹی نے تقریباً 7,600 ترامیم میں سے آئین پر بحث اور غور و خوض کرتے ہوئے تقریباً 2400 ترامیم سے جان چھڑائی۔آئین ساز اسمبلی کا آخری اجلاس 26 نومبر 1949 کو ختم ہوا اور اسی وقت آئین کو اپنایا گیا۔ تاہم صرف دو ماہ بعد 26 جنوری 1950 کو اس پر دستخط کرنے والے 284 ارکان کے دستخطوں کے بعد اس کا نفاذ عمل میں آیا۔یوم جمہوریہ کی اہمیت:
26 جنوری کو ہندوستان کا یوم جمہوریہ ہونے کا فیصلہ کیا گیا، کیونکہ یہ وہ دن تھا جب انڈین نیشنل کانگریس (INC) نے 1930 میں ہندوستان کی آزادی کا اعلان کیا تھا۔ اس دن کا انتخاب کانگریس کی پورنا سوراج کی قرارداد کے بعد سے کیا گیا تھا۔اس قرارداد کے بعد نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف ملک گیر سیاسی تحریک کا آغاز بھی کیا۔
1950 کو اپنا ملک ہندوستان جمہوری ہوا, یعنی اپنے ملک میں اپنے لوگوں پر اپنا قانون لاگو ہوا, ملک کا موجوده دستور مرتب کرنے میں 2 سال 11ماه اور 18دن لگے تھے , دستورساز اسمبلی کے مختلف اجلاس میں اس نئے دستور کی ہراک شق پر کهلی بحث ہوئ , پھر 26 نومبر 1949کو اسے قبول کرلیاگیا, اور 24 جنوری 1950 کوایک مختصراجلاس میں تمام ارکان نے نئے دستور پردستخط کردیا,البتہ مولانا حسرت موہانی نے مخالفت کرتے ہوئے دستورکے ڈرافٹ پر ایک نوٹ لکها کہ "یہ دستور برطانوی دستورکاہی اجراء اورتوسیع ہے جس سے آزاد ہندوستانیوں اور آزا دہند کا مقصد پورا نہیں ہوتا "بہرحال 26 جنوری 1950 کو اس نئےقانون کولاگو کرکےملک بھر میں پہلا "یوم جمہوریہ" منایاگیا, اس طرح ہرسال 26 جنوری " یوم جمہوریہ " کے دن کے طور پر پورے ملک میں جوش وخروش کےساتھ منایاجاتاہے, اور 15 اگست 1947 کی طرح یہ تاریخ بهی ملک کا قومی اور یادگاری دن بن گئ ہے ,26 جنوری کو جشن کےطورکیوں مناتے ہیں, تو آئیے تاریخ کے اوراق کا مشاہدہ کرتےچلیں, جشن کایہ دن ہندوستانیوں کو یونہی نہیں ملا,اس کیلئےبڑی سے بڑی قربانیاں دینی پڑی, لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کرنے پڑےہیں , تب جاکر 26 جنوری کو جشن منانےکا یہ زریں موقع ہندوستانیوں کو نصیب ہواہے , انگریزوں کا پہلا قافلہ 1601 میں دور جہانگیری میں ہی ہندوستان آیاتها ,اس حساب سے ہندوستان سے انگریزوں کا انخلاء 1947 میں 346 سال بعد ہوا, اس دوران ظلم وبربریت کی ایک طویل داستان لکھی گئ تھی جسکا ہرصفحہ ہندوستانیوں کے خون سے لالہ زار ہے ، جذبہ آزادی سے سرشار اورسر پر کفن باندھ کر وطن عزیز اور اپنی تہذیب وتمدن کی بقاء کیلئے بےخطر آتش افرنگی میں کودنے والوں میں مسلمان پیش پیش تھے, جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں اگر الگ کردی جائیں تو ہندوستان کی آزادی کی تاریخ کبھی مکمل نہ ہوگی , آزادی ملنے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ اٹها کہ ملک کا دستور کیسا ہو, مذهبی ہو یا لامذہبی, اقلیت و اکثریت کےدرمیان حقوق کس طرح طے کئے جائیں , چنانچہ آئین هند کے ابتدائ حصے میں صاف صاف یہ لکھا گیا ہےکہ ہم ہندوستانی عوام یہ تجویز کرتے ہیں کہ" ہندوستان کو ایک آزاد, سماجوادی , جمہوری , ملک کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے, جس میں تمام شہریوں کیلئے سماجی, معاشی, سیاسی, انصاف, آزادئ خیال,آزادی اظہار راے, آزادئ عقیدہ ومذهب وعبادات, انفرادی تشخص, اوراحترام کو یقینی بنایا جائے گا,اور ملک کی سالمیت و یکجہتی کو قائم ودائم رکها جائیگا " آزادی کے بعد ملک میں سیکولر جمہوری نظام نافذ کرانے میں جمعیت علماء ہند کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے, جمعیت علماء ہند کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمۃ اللہ علیہ نے بحیثیت رکن دستور ساز اسمبلی میں اقلیتوں کو مراعات دلانے میں اہم کردار ادا کیاہے ,1971میں سابق وزیراعظم محترمہ اندراگاندهی نے دستور کےاسی ابتدائیہ میں لفظ " سیکولر" کااضافہ کیاتھا,ہنوستانی جمہوری نظام ایک بہترین نظام ہے, اس میں مختلف افکار وخیالات اورتہذیب وتمدن کے لوگ بستے ہیں, اور یہی مختلف رنگارنگی تہذیب یہاں کی پہچان ہے, 26 جنوری کو اسی مساوی دستور وآئین کی تائید میں اور کثیر المذاهب ملک ہونے کے باوجود باہمی یکجہتی اور میل جول کے اس عظیم ملک ہندوستان کی جمہوریت پرناز کرنے کےلئے 26جنوری کو "جشن جمہوریت " مناکر شہیدان ملک اور آئین کے بانیین ومرتبین اور ملک کی آزادی میں اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرنے والے مجاہدین آزادی کو بہترین خراج عقیدت پیش کی جاتی ہے,انگریزوں نے" ایسٹ انڈیا کمپنی" کے ساتھ 1601 میں تجارت کی غرض سے ہندوستان آیا, اس وقت ہندوستان میں جہانگیر بادشاه کی حکومت تهی (یہ اکبر بادشاہ کا لڑکا تها۔ اس کا اصل نام سلیم نورالدین اور لقب جہانگیرتها) انگریزوں کو باقاعده تجارت کی اجازت جہانگیر کےدوسرے لڑکے شاه خرم (شاہجہاں) نےدی تھی , رفتہ رفتہ اس کمپنی نے تجارت کی آڑ میں اپنی فوجی طاقتوں میں اضافہ کرنا شروع کردیاتھا (یعنی مال کی جگہ ہتھیار اور ملازم کی آڑمیں فوجیوں کو انگلستان سے بلاناشروع کردیاتھا )مگردہلی میں مغلیہ سلطنت اس قدر مضبوط تهی کہ انگریزوں کو خاطرخواه کامیابی نہیں ملی ,شاہجہاں کےدوسرے لڑکے اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کمزور ہونے لگی , اٹهارہویں صدی میں مغلیہ سلطنت کی عظمت کا سکہ کمزور ہوتے ہی انگریزوں کے عروج کادور شروع ہوگیا ,عیار اورشاطرانگریزوں نے پورے ملک پر قبضےکا پلان بنالیا, ہندوستا نیوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنےکامنصوبہ طےکرلیا, انکےخطرناک عزائم اور منصوبے کو بهانپ کر سب سے پہلےمیدان پلاسی میں جس مرد مجاهد نے انگریزوں سے مقابلہ کیا اور 1757میں جام شہادت نوش کیا وه شیر بنگال نواب سراج الدولہ تها, پھر 1799میں سرنگاپٹنم میں انگریزوں کامردانہ وارمقابلہ کرتے ہوئے شیر میسور فخر ہندوستان ٹیپو سلطان شھید رحمۃ اللہ علیہ نے ملک پرجان نچھاور کردی, جسکی شہادت پرانگریز فاتح لارڈہارس نے فخر ومسرت کے ساته یہ اعلان کیا تها کہ " آج سے ہندوستان ہماراہے"1803میں انگریزی فوج دہلی میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئ اور بادشاہ وقت "شاه عالم ثانی " سےجبرا ایک معاهده لکھوایا کہ "خلق خداکی, ملک بادشاہ سلامت کا , اورحکم کمپنی بہادر کا"یہ بات اس قدرعام ہوگئ کہ لوگ کہنےلگے "حکومت شاہ عالم ازدہلی تاپالم"یہ معاهده گویا اس بات کا اعلان تها کہ ہندوستان سے اب اسلامی اقتدار ختم ہوچکاہے, وحشت و بربریت ,ظلم وستم کی گهنگهورگهٹائیں پوری فضاکو گهیرچکی ہیں ,وطنی آزادی اورمذهبی تشخص ان کےرحم وکرم پرہوگی, ایسے بهیانک ماحول اورپرفتن حالات میں امام المحدثین حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے حضرت شاه عبدالعزیزدہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے پوری جرأت وبیباکی کےساتھ فتوی جاری کیاکہ "ہندوستان دارالحرب ہے"یعنی اب ملک غلام ہوچکا ہے, لهذا بلاتفریق مذہب وملت ہر ہندوستانی پرانگریزی تسلط کے خلاف جہاد فرض ہے, ان کے فتوی کی روشنی میں علماء کهڑے ہوئے حضرت سیداحمد شہید رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شاه اسماعیل شہید رحمهما الله آگےبڑهے , پورے ملک کادوره کرکےقوم کوجگایا اور ان میں حریت کاجزبہ پیدا کرکے آزادی کی آگ لگادی, اور 1831کو بالاکوٹ کی پہاڑی پر لڑکر جام شہادت نوش کیا,دهیرے دهیرے پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی چنگاریاں سلگنےلگی , 1857 میں علماء نے پھر جہاد کا فتوی دیا جسکی وجہ سے انگیزوں کے خلاف معرکہ کارزار ایک بار پهرگرم ہوگیا ,دوسری طرف انگریزی فوجیں پورے ملک میں پھیل چکی تهیں, اورہندوستان سے مذہبی بیداری و سرگرمی ختم کرنے کے لئے انگریزوں نے بےشمار عیسائ مبلغین (پادری ) کو بھی میدان میں اتاردیاتها,جسےانگریزی فوج کی مکمل پشت پناہی حاصل تهی, جو جگہ جگہ تقریریں کرتے اور عیسائیت کا پرچارکرتے , اسی دوران یہ خبر گشت کرنےلگی کہ انگریزی حکو مت نے ہندومسلم کا مذہب خراب کرنے کےلئے اور دونوں کےدرمیان اختلاف پیدا کرنے کیلئےآٹے میں گائے اورسور کی ہڈی کا براده ملادیا ہے, کنویں میں گائے اور سور کا گوشت ڈلوادیا ہے, ان واقعات نے ہندوستانیوں کےدلوں میں انگریزوں کےخلاف نفرت کی ایک ایسی آگ لگادی ,جس کی وجہ سےانگریزی فوج میں ملازمت کررہے ہندومسلم سب نے زبردست احتجاج کیا,کلکتہ سےاحتجاج کی جو چنگاریاں اٹهی تھی وہ دھیرے دھیرےپورے ملک میں شعلہ جوالہ بن گئیں ,احتجاج کرنے والے سپاہیوں اور انکے ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئ, اورجہاں جہاں احتجاج ہوا اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے سخت سے سخت کاروائ کی گئیں, احتجاجیوں کی بندوقیں چهین لی گئیں , وردیاں پهاڑ دی گئیں,1857 میں شاملی کے میدان میں سید الطائفہ عارف باللہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرمکی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں بانی دارالعلوم دیوبند حجتہ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ قطب ارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت حافظ ضامن شہید رحمھم اللہ وغیرھم نے انگریزوں سے مردانہ وار مقابلہ کیا, بغاوت پھوٹنے کے بعد زیادہ تر آزادی کے دیوانوں نے دہلی کا رخ کیا اور پورے عزم وحوصلہ کے ساته دہلی شہر اورمغلیہ حکومت کا دفاع کرتے رہے, مگر انگریزوں کی منظم فوج کےسامنے آزادی کی یہ جنگ ناکام ہوگئ , اور انگریزوں نے 20 ستمبر 1857 کو لال قلعہ پر باقاعده قبضہ کرلیا, اورسلطنت مغلیہ کےآخری بادشاہ بہادرشاه ظفر رحمہ اللہ کو گرفتار کرکے رنگون (برما) جلاوطن کر دیاگیا,1857 کی جنگ ,جسے انگریزوں نےغدر کا نام دیاتها,اس جنگ کے ناکام ہونے کے بعد انگریزوں نےظلم وستم کی ایسی بجلیاں گرائیں کہ جس کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہیں , جنگ آزادی میں سب سے پیش پیش مسلمان اور علماء تهے, اس لئے بدلہ بهی چن چن کر سب سے زیادہ انہیں سے لیا گیا, دہلی سے لاہور تک کوئ درخت ایسا نہیں تھا جس پر علماء کی لاشیں لٹکی ہوئ نہیں تھی , چا لیس ہزار سے زائد علماء کو پھانسی کےپھندے پر لٹکا دیا گیاتھا,30 مئ 1866 کو حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور انکے ساتھیوں نےدیوبند میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی جو آگے چل کر " دارالعلوم دیوبند" کے نام سےپورےعالم میں مشہور ہوا, 1878 میں اسی درسگاہ کے ایک فرزند شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ جو آگے چل کر"شیخ الهند" کےلقب سے مشہورہوئے, " تحریک ریشمی رومال" بزبان حکومت برٹش " ریشمی خطوط سازش کیس " انهیں کی پالیسی کاحصہ تهی ," ثمرة التربیت " کے نام سے ایک انجمن قائم کی گئ جسکا مقصد انقلابی مجاهدين تیارکرنا تها, اور1911 میں امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ سابق وزیر تعلیم حکومت ہندوستان نے بھی کلکتہ سےالهلال اخبارکے ذریعہ آزادی کا صور پهونکاتھا,1915میں ریشمی رومال کی تحریک چلی, 1916 میں ہندو مسلم اتحادکی تحریک چلی , 1917میں مہاتماگاندھی جی نےچمپارن میں ڈانڈی مارچ اورنمک ستیہ آگرہ تحریک چلائ اور 1919 میں " جمعیۃالانصار " کے نام سے ایک تنظیم قائم ہوئ جسکے پہلے ناظم امام حریت حضرت مولانا عبیداللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ منتخب ہوئے,وہیں 23 نومبر 1919 میں دہلی میں خلافت کانفرنس کا اجلاس ہوا اور اسی اجلآس میں باضابطہ "جمعیت علماء هند" کی تشکیل ہوئی جسکے پہلے صدر سابق مفتی اعظم ہند مفتی محمد کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ منتخب ہوئے,1919 میں ہی امرتسر کےجلیاں والا باغ کے ایک جلسے میں انگریزوں کی فائرنگ سے بے شمار ہندوستانی شہید ہوئے,1920 میں حضرت شیخ الهند نےترک موالات کافتوی دیا جسے مولانا ابوالمحاسن سجاد بہاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرتب کرکے جمعیت کی طرف سے شائع کیا,1921 میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے کراچی میں پوری جرأت کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ " گورنمنٹ برطانیہ کی اعانت اورملازمت حرام ہے"1922 میں ہندو مسلم اتحاد ختم کرنےکےلئے انگریزوں نے شدهی اور سنگهٹن تحریکیں شروع کیں جسکی وجہ سے بڑے پیمانہ پرملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات پهوٹ پڑے,1926 میں کلکتہ میں جمعیت علماء ہند کےاجلاس میں جسکی صدارت خطیب الاسلام حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نےکی مکمل آزادی کی قرارداد منظور ہوئ 1935 میں حکومت ہند کا ایک دستور بنایاگیا, 1942 میں انگریزوں ہندوستان چھوڑوں تحریک چلی, باالاخر برٹس حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئ , اور 15اگست 1947کو ملک آذاد ہوگیا 26جنوری "یوم جمہوریہ " کے جشن زریں کے موقع پر آئیے ہم سب ملکر آیئن کےتحفظ اور جمہوری اقدار کی بقا کو مقدم رکھنے کا حلف لیں اور " یوم جمہوریہ " کےمعماروں کو سچی خراج عقیدت پیش کریں۔ ہندوستان کا شمار دنیاکے سب سے بڑے جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ہندومسلم ،سکھ ،عیسائی سبھی مذاہب کے لوگ بڑی محبت سے رہتے چلے آرہے ہیں، اس لیے کہ ہندوستان کوانگریزوں سے آزاد کرانے کے لیے تمام مذاہب کے لوگوں نے مل کر لڑائی لڑئیں اور 15اگست 1947ء کو ہندوستان آزاد ہوا، پھر ہندوستان کو چلانے کے لیے 26نومبر 1949ء کوایساقانون بنایا گیا جس میں ہر مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب کے اعتبار سے رہنے کاحق دیا گیا، یہ قانون 26جنوری1950ء کونافذکیا گیا، اس قانون کے بعد ہندوستان میں جمہوری طرز کا آغاز ہوا ۔26جنوری کے دن ہندوستان میں "یوم جمہوریہ” کے نام سے جس طرح کالج اور یونیورسیٹیوں میں تقریب کا انعقاد کیاجاتا ہے اسی طرح مدارسِ اسلامیہ میں بھی پرچم کشائی کے لیےجشن کی تقریب کا اہتمام کیاجاتا ہے اور طلبہ وعوام کو ہمارےاسلاف نے جنگ آزادی میں جو کارہائے نمایاں انجام دیا اور وطن عزیز کی آزادی کی خاطر اپنی جانوں کا جو نذرانہ پیش کیا، جنہوں نے اپنے وطنِ عزیز کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کے لئے ہنستے ہنستے اپنی جانیں قربان کردیں اس سے باور کرایاجاتاہے، اور یہ بھی بتایاجاتا ہے کہ دوسرے مذاہب کے بنسبت ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا رول بہت ہی اہم رہا ہے اور یہ تحریک اصل میں مسلمانوں نے شروع کی تھی ۔ اس کا اندازہ ہم اس طرح لگا سکتے ہیں کہ 1857ء کے ایک سال میں یہاں پر 24/ہزار مسلمانوں نے وطن عزیز کے لئے اپنی جانوں کو قربان کیا تھا ۔ یومِ جمہوریہ کی مناسبت سے جنگِ آزادی کی قربانیوں کو عام کیا جاتا ہےاور عوام کو مجاہدینِ جنگِ آزادی کی قربانیوں سے روشناس کرایا جاتاہے، نئی نسلوں کے ذہن میں تازہ کرایاجاتاہے، انہوں نے ہمارے لئے یہ قربانیاں اس لئے پیش کیں تاکہ ہم آزاد فضا میں سانس لے سکیں، جب ہمیں آزادی ملی تو جوقانون ملک کے لئے بنایا گیا اس میں ہرمذہب وملت کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی عطا کی گئی، واقعی میں ہندوستان کا قانون اتنا اچھا ہے کہ اس میں کسی مذہب سے ٹکراؤ نہیں ہے. اس میں بتایا گیا ہے کہ یہ ملک مذہب کی بنیاد پر حکومت نہیں کرے گا، اس لئے دستور کی42ویں ترمیم کی رو سے ہندوستان کو ” سیکولر اسٹیٹ” کہا گیا ہے جہاں ہر مذہب کا مساوی طور پر احترام لازمی قرار دے دیا گیا ہے، قانونِ ہند کے مطابق ہر ہندوستانی شہری چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا کیوں نہ ہو، قانون کی نگاہ میں برابر ہے اور ہر شہری کو آزادیٔ رائے، آزادیٔ خیال اور آزادیٔ مذہب کا حق حاصل ہے۔ دستورِ ہند میں اقلیتوں کو بھی ان کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علیحدہ تعلیمی ادارے قائم کرسکتی ہیں، اپنی تہذیب، تمدن اور زبان کو فروغ دے سکتی ہیں اور اپنے مذہب کی اشاعت کرسکتی ہیں، لیکن افسوس ہوتا ہےکہ برابری حقوق کے باوجود بھی آج مسلمانوں پر ظلم کے ستم ڈھائے جارہے ہیں، کبھی گھر واپسی کے نام پر ،کبھی لوجہاد کے نام پر ،کبھی گائے کے نام پر، کبھی این آر سی کا خوف دلاکر ظلم کیا جارہا ہے، کبھی مساجد کی اذان پر سوال اٹھایاجاتاہے تو کبھی بھارت ماتا کی نعرہ لگانے پر زور دلایاجاتا ،کبھی کچھ شدت پسندتنظیموں کے ذریعہ اپنے مذہبی نعرہ لگوانے پر مسلمانوں پر ظلم کیاجاتا ہے، اس کے باوجود کسی شرپسندوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی ہے۔ الغرض ان حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتاہے کہ مسلم اقلیت کو آئین میں ملنے والے تمام حقوق سے محروم کر نے کی مکمل کوشش زور و شور سے جاری ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی دیکھ رہی ہے۔اس وقت ہرہندوستانی مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دستور ہند کو جانیں اور دستور ہند سے متعلق جو کتابیں دستیاب ہیں ان کو پڑھنےکی کوشش کریں اور ایسے لوگوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے دستور ہند کی روشنی میں ان کی ظالمانہ کوششوں کو ناکام بنائیں۔ انگریز یہاں سے چلے تو گئے لیکن افسوس اس کے نظریے کو ماننے والے ابھی بھی موجود ہیں جو انگریزوں کے اثرات بد کو قبول کرکے ہندوستان کو مذہب، علاقے، برادری اور غریبی وامیری اور رنگ ونسل کی بنیاد پر تقسیم کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر متعصبانہ رویہ کی تحریک چلائی جارہی ہے، اس کے باوجود بھی ہندوستان کا ہر مسلمان یہاں کی اس دم توڑتی ہوئی جمہوریت کا احترام کرتا ہوا نظر آتا ہے.شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا یہ شعر ملا حظہ ہو,
سارےجہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
 ہم بلبلیں ہیں اسکی یہ گلستاں ہمار
امذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہے ہم وطن ہے ہندوستاں ہمار۔

شعبہ نشرواشاعت۔ انجمن قاسمیہ پیری میٹ چنئی ٹمل ناڈو انڈیا
anjumanqasimiyah@gmail.com

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر