Latest News

سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی پر عالم اسلام سراپا احتجاج، بدبختوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔

استنبول؍ اسٹاک ہوم۔۲۲؍ جنوری: سویڈن کی راجدھانی اسٹاک ہوم میں قرآن کریم کو نذرآتش کرنے کا مذموم واقعہ سامنے آیا،جس سے عالم اسلام میں شدید غم وغصہ کی لہر پھیل گئی ،واضح ہو کہ ہفتے کے روز سویڈن کے انتہا پسند دائیں بازو کے لیڈرراسمس پالوڈن نے پہلے ایک گھنٹے تک تقریر کی۔ اس میں انہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ وہ قرآن کو نذر آتش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اپنی تقریر میں راسمس پالوڈن نے سویڈن میں اسلام اور تارکین وطن پر شدید تنقید کی، جس کے اختتام پر اس نے (نعوذ باللہ)  قرآن پاک کے ایک نسخۂ کو لائٹر سے آگ لگا دی اور کچھ دیر تک جلتا ہوا قرآن پاتھ میں پکڑے رکھا۔اس موقع پر پولیس کی بھاری حفاظتی نفری بھی موجود تھی۔حاضرین کی تعداد سو کے قریب تھی، جن میں کئی صحافی بھی شامل تھے،یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی متعد مسلم ممالک نے اس ناپاک حرکت کو اسلاموفوبیا کا نتیجہ قرار دیا۔ایران ، ترکی، پاکستان، سعودی عرب، اردن اور کویت سمیت کئی عرب ممالک نے بھی سویڈن میں قرآن کریم جلانے کی مذمت کی۔ترکیہ محکمہ مذہبی امور کے سربراہ اور آیا صوفیہ کے خطیب علی ارباش نے انتہائی دائیں بازو کے حامی سیاست دان راسموس پیلوڈین کی طرف سے، ترکیہ اسٹاک ہوم سفارت خانے کے سامنے اور سویڈن حکومت کی اجازت سے، قرآنِ کریم پر گستاخانہ حملے کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ 
علی ارباش نے سوشل میڈیا سے جاری کردہ بیان میں "آو قرآن دوستو، نمازِ فجر کے بعد قرآن پڑھیں" کے الفاظ کے ساتھ ہر ایک کو مساجد میں قرآن خوانی کی دعوت دی ہے۔اس دعوت کے بعد ملک بھر کی تمام مساجد میں عوام جوق در جوق نمازِ فجر کے لئے جمع ہوئے۔محکمہ مذہبی امور کے سربراہ علی ارباش نے انقرہ کی حاجی بائرام جامع مسجد میں نمازِ فجر کی امامت کی اور شہریوں کے ساتھ مل کر دعا کی۔نمازیوں کے لئے خطبے میں انہوں نے کہا ہے کہ اس دنیا کے باسیوں کی حیثیت سے ہم ایک دوسرے کے دین، کتاب اور نسل کا احترام کرنے پر مجبور ہیں۔ اسلام نے حالت جنگ تک میں بعض چیزوں کو نقصان پہنچانے سے منع کیا ہے ۔ ان میں بچے، عورتیں، عبادت گاہیں اور مختلف عقائد کے حامل لوگوں کی مقدس کتابیں بھی شامل ہیں۔ارباش نے کہا ہے کہ "باہم مِل جُل کر رہنے کی اہم ترین شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ انسانوں کے عقائد، نسل اور رنگ کا احترام کیا جائے۔ آپ بھی قرآن کے ساتھ دشمنی نہیں دوستی کریں"۔ سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ سعودی عرب بات چیت، رواداری اور بقائے باہمی کی اقدار کو پھیلانے کا مطالبہ کرتا ہے اور نفرت اور انتہا پسندی کو مسترد کرتا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کینانی نے بھی واقعے کی مذمت کی ہے۔ ترجمان ناصر کنعانی نے کہا ہے کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ بعض یورپی ممالک ماضی کی طرح آزادی اظہار رائے کی حمایت کا جھوٹا دعوی کر کے اور اسے بہانہ بنا کر اسلامی مقدسات اور اسلامی اقدار کے خلاف نفرت پھیلانے کی راہ میں انتہا پسند اور شدت پسند عناصر کیلئے راستہ ہموار کر رہے ہیں اور انسانی حقوق کے خوبصورت نعروں کے باوجود وہ اپنے معاشروں میں اسلامو فوبیا کو ہوا دیتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کے عمل کو دہرانا تمام مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور تشدد کو ہوا دینے کی واضح مثال ہے اور اس طرح کے اقدامات کا اظہار رائے کی آزادی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان نے بھی سویڈن میں قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے دنیا بھر کی 1.5 بلین مسلم کمیونٹی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اسلامو فوبیا کا یہ ایک بے ہودہ اور اشتعال انگیز عمل دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔وزارت نے کہا کہ اس طرح کے عمل کو آزادی اظہار کے حق کے تحت نہیں لایا جا سکتا۔ آزادی اظہار میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی ذمہ داریاں شامل ہیں، جن میں نفرت انگیز تقریر اور تشدد پر اکسانے والی کارروائیوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔وزارت نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلامو فوبیا، زینو فوبیا، عدم برداشت اور مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر تشدد پر اکسانے کے خلاف عہد کریں اور پرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کریں۔اس کے علاوہ پاکستان نے اپنے تحفظات کو لیکر سویڈن میں حکام کو آگاہ کیا ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھے اور اسلامو فوبک کارروائیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔سویڈن کے وزیر خارجہ توبیان بل اسٹروم نے بھی راسمس پالوڈن کے احتجاج پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ اسلاموفوبیا پر مبنی اشتعال انگیزی خوفناک ہے، سویڈن میں اظہار رائے کی آزادی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سویڈن کی حکومت یا میں ذاتی طور پر اس اظہار کی حمایت کروں۔اسلامی تعاون تنظیم اور رابطہ عالم اسلامی نے سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں حکام کی اجازت سے قرآن کریم کے نسخے کو نذر آتش کئے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ذمہ داروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔اسلامی تعاون تنظیم کے سکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحہ نے آج اتوار کو کہا کہ انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں کی جانب سے سویڈن کے حکام کی اجازت سے قرآن پاک کے نسخے کی بے حرمتی کرنا قابل مذمت ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ یہ اشتعال انگیز عمل ہے۔ یہ انتہا پسند عناصر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں ، ان کی مقدس اقدار کی توہین کرتے ہیں۔ یہ ایک اور مثال ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامو فوبیا، نفرت، عدم رواداری اور زینو فوبیا کس خطرناک حد تک پہنچ چکے ہیں۔اسلامی تعاون تنظیم کے سکریٹری جنرل نے سویڈش حکام پر زور دیا کہ وہ اس نفرت انگیز جرم کے مرتکب افراد کے خلاف ضروری اقدامات کریں۔رابطہ عالم اسلامی نے اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ یہ وحشیانہ عمل مسلمانوں کو ان کے عقیدے کے ساتھ ایمان میں اضافہ ہی کریں گے۔رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے نفرت کو ہوا دینے اور مذہبی جذبات کو بھڑکانے والے طریقوں کے خطرے سے خبردار کیا اور کہا کہ اس طرح کے لاپرواہ رویے سے دیگر جرائم کے علاوہ آزادیوں کے تصور اور ان کی انسانی اقدار کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔دارصل سویڈن کے شہروں میں کردوں کی حمایت میں ترکیہ کے خلاف احتجاج جاری ہے جس سے ترکیہ ناراض ہے۔ مظاہرین نے کردستان ورکرز پارٹی، یا PKK سمیت مختلف کرد گروپوں کے جھنڈے لہرائے، جس گروپوں نے ترکیہ کے خلاف دہائیوں سے بغاوت کر رکھی ہے۔ PKK کو ترکیہ، یورپی یونین اور امریکہ میں ایک دہشت گرد گروپ سمجھا جاتا ہے، لیکن سویڈن میں اس کی علامتوں پر پابندی نہیں ہے۔ جبکہ سویڈن کو نیٹو فوجی اتحاد میں شامل ہونے کے لیے ترکیہ کی حمایت کی ضرورت ہے۔ ترکیہ کا موقف ہے کہ سویڈن کرد گروپوں کے خلاف کارروائی کے لیے کافی اقدام نہیں کر رہا ہے جنہیں انقرہ دہشت گرد کے طور پر دیکھتا ہے۔ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے سویڈش حکام پر سخت تبقید کرتے ہوئے کہا کہ اس مظاہرے پر پابندی لگائی جانا چاہیے تھی مگر ایسا نہ کیا گیا۔چاوش اولو نے الزام لگایا، ”یہ ایک نسل پرستانہ اقدام ہے۔ یہ اظہار رائے کی آزادی تو بالکل ہی نہیں ہے۔‘‘اسی دوران ترک صدر اردگان کےایک ترجمان نے کہا کہ انقرہ کی طرف سے بار بار کی تنبیہات کے باوجود اس مظاہرے کی اجازت دنیا ”نفرت کی بنا پر جرائم اور اسلاموفوبیا کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔‘‘

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر