Latest News

دہلی میں جمعیۃ علماء ہند کے سہ روزہ ۳۴ویں اجلاس کا آغاز، توہین رسالت اور ملک میں بڑھتی منافرت کے خلاف سرکار سے کارروائی کا مطالبہ۔

 نئی دہلی: پریس ریلیز۔
 آج یہاں دہلی کے رام لیلا میدان میںجمعیۃ علماء ہند کا چونتیسواںاجلاس عام صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کے ہاتھوں پرچم کشائی سے شروع ہوا۔اس موقع پر مولانا قاری احمد عبداللہ صاحب نے ترانۂ جمعیۃ بہت ہی پر اثر آواز میں پیش کیا۔بعد ازاں مولانا قاری محمد آصف صاحب استاذ دارالعلوم وقف دیوبند کی تلاوت کلام پاک کے بعد مولانا امین الحق عبد اللہ اسامہ صاحب کانپوری کی بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ہدیۂ نعت پاک پیش کیا۔اجلاس کی تحریک صدارت مولانا افتخار احمد صاحب صدر جمعیت علمائے کرناٹک نے پیش کرتے ہوئے مولانامحمود اسعد مدنی کانام پیش کیا۔مختلف ریاستی صدور نے جس کی بھرپور تائید کرتے ہوئے اسے کامیابی کا استعارہ قرار دیا۔مولانا حکیم الدین قاسمی ناظم عمومی جمعیت علمائے ہند نے سکریٹری رپورٹ پیش کرتے ہوئے دیوبند کی منتظمہ سے تا حال جمعیت کی خدمات و کارناموںکا اشاریہ پیش کیا۔ اس کے علاوہ اجلاس کی اس پہلی نشست میں مختلف تجاویز پیش کی گئیں جن میںملک میںبڑھتی ہوئی منافرتی مہم اور اسلامو فوبیا کے انسداد،انتخابات میں ووٹروں کے اندراج اور شرکت کو یقینی بنانے کے لیے مؤثر اقداما ت ،ماحولیات کے تحفظ،میڈیا کے ذریعہ اسلام مخالف اور حضورﷺ کی شان میں گستاخی، افترا پردازی کے انسداد، مسلم اوقاف کے تحفظ کی تدابیر،اور اِسلامی تعلیمات کے سلسلے میں غلط فہمیوں کے اِزالہ اور اِرتدادی سرگرمیوں کے اِنسداد کی تجاویز اہمیت کی حامل ہیں۔ملک میں بڑھتی ہوئی منافرتی مہم اور اسلاموبیا کے انسداد کی تجویز میں کہا گیا کہ آج ہمارے ملک میں اِسلامو فوبیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و اشتعال انگیزی کے واقعات میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے ۔ سب سے زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ سب چیزیں سرکار کی نگاہوں کے سامنے ہورہی ہیں ، مختلف بین الاقوامی اداروں ، بھارت کی سول سوسائٹیوںکی رپورٹس اور سپریم کورٹ کے انتباہ کے باوجود ارباب اقتدار نہ صرف ان واقعات کے سد باب سے گریزا ں ہیں بلکہ کئی بی جے پی رہ نمائوں ، ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیامنٹ کے نفرت پر مبنی بیانات سے ملک کی فضا لگاتار مسموم ہورہی ہے ۔جن کے باعث ملک کے معاشی وتجارتی نقصان کے علاوہ ملک کی نیک نامی بھی متاثر ہورہی ہے۔ایسی صورت حال میں ملک کی سالمیت اور نیک نامی کے حوالے سے جمعیۃ علماء ہند حکومت ہند کو متوجہ کرنا چاہتی ہے کہ:وہ فوری طور سے ایسے اقدامات پر روک لگائے، جو جمہوریت، انصاف و مساوات کے تقاضوں کے خلاف اور اِسلام دشمنی پر مبنی ہیں۔ نفرت پھیلانے والے عناصر اور میڈیا پر بلاتفریق سخت کارروائی کی جائے بالخصوص سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کی روشنی میں لا پروائی برتنے والی ایجنسیوں پر ایکشن لیا جائے اورشرپسندوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔لاء کمیشن کی سفارش کے مطابق تشدد پر اکسانے والوںکو خاص طور پر سزا دینے کے لیے ایک علاحدہ قانون وضع کیا جائے اور سبھی اقلیتوں؛ بالخصوص مسلم اقلیت کو سماجی واقتصادی طور پر الگ تھلگ کرنے کی کوششوں پر روک لگائی جائے۔ملک میں ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے’ نیشنل فائونڈیشن فار کمیونل ہارمونی‘(National Foundation for Communal Harmony) اور’ نیشنل انٹیگریل کائونسل’ National Integral Council) )کو فعال بنایا جائے اور اس کے تحت بقائے باہم سے متعلق پروگرام اور مظاہرے منعقد کیے جائیں ، بالخصوص سبھی مذاہب کے بااثر افراد کی مشترکہ میٹنگوں اور کانفرنسوں کا اہتمام کیاجائے ۔جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس عام تمام انصاف پسند جماعتوں اور ملک دوست اَفراد سے اپیل کرتا ہے کہ رد عمل اور جذباتی سیاست کے بجائے متحد ہوکر شدت پسند اور فسطائی طاقتوں کا سیاسی اور سماجی سطح پر مقابلہ کریں او رملک میں بھائی چارہ، باہمی رواداری اور اِنصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں۔جمعیۃ علماء ہند اُمت کے نوجوانوں اور طلبہ کی تنظیموں کو خاص طور سے متنبہ کرتی ہے کہ وہ اندرونی وبیرونی وطن دشمن عناصر کے براہ راست نشانے پر ہیں، انھیں مایوس کرنے ، بھڑکانے اور گمراہ کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے، اِس لیے حالات سے ہرگز مایوس نہ ہوں اور نہ ہی صبر وہوش کا دامن چھوڑیں۔ جو نام نہاد تنظیمیں اسلام کے نام پر جہاد کے حوالے سے انتہا پسند ی اور تشدد کا پرچار کرتی ہیں اور قومی سلامتی کے زاویے سے ایجنسیوں کی نظر میں قابل گرفت اور مشتبہ ہیں ، ان سے بیزاری اور دوری بنائے رکھنا ہمارے نوجوانوں اور طلبہ کے تحفظ اور کیرئیر کے لیے بے حد ضروری ہے ۔جانے انجانے میں ذرا سی غفلت ان کی پوری زندگی کو تباہ کرسکتی ہے ۔ میڈیا کی طرف سے جاری اسلامو فوبیاکی مہم کے تحت مقدس اسلامی شعائر کی شبیہ خراب کرنے اور اسلامی اصطلاحات کی غلط تشریح کرنے کا رویہ عام ہوتا جاراہا ہے ، بین المذاہب شادیوں کو جہاد کا نام دے کر جہاد کو بدنام کرنا ہرگز مناسب نہیں اوریہ اجلاس اس کی مذمت کرتا ہے۔

سمیر چودھری۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر