Latest News

بابری مسجد مقدمہ کے جج عبدالنظیرآندھرا کے گورنر، رمیش بیس کو مہاراشٹر کی ذمہ داری سونپی گئی،۱۳ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے نئے گورنروں کی تقرری۔

نئی دہلی: صدر جمہوریہ ہند دروپدی مرمو نے آج ۱۳ ریاستوں میں نئے گورنروں کی تقرری کی۔ دریں اثنا، مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری اور لداخ کے لیفٹننٹ گورنر رادھا کشن ماتھر نے آج اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔
صدر جمہوریہ نے ان کے استعفے منظور کر لیے ہیں۔ چھتیس گڑھ کی گورنر انسوئیااوئیکی کو منی پور کی ذمہ داری دی گئی ہے اور ان کی جگہ آندھرا پردیش کے گورنر بی بی ہری چرن کو مقرر کیا گیا ہے۔لیفٹیننٹ جنرل کیولیا تریوکرم پرنائک کو اروناچل پردیش، لکشمن پرساد اچاریہ سکم، سی پی رادھا کرشنن جھارکھنڈ، شیو پرتاپ شکلا ہماچل پردیش، گلاب چندر کٹاریہ آسام اور جسٹس (ریٹائرڈ) ایس عبدالنذیر کو آندھرا پردیش کا گورنر مقرر کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایل گنیشن (منی پور) کو ناگالینڈ کا گورنر، فاگو چوہان (بہار) کو میگھالیہ کا، راجندر وشواناتھ ارلیکر (ہماچل پردیش) کو بہار، رمیش بیس (جھارکھنڈ) کو مہاراشٹر کا، بریگیڈیئر بی ڈی مشرا (اروناچل پردیش) کو لداخ کا گورنر بنایا گیا ہے۔سپریم کورٹ کے سابق جج اور بابری مسجد رام جنم بھومی معاملے میں آئینی بینچ کا حصہ رہے جسٹس ایس عبدالنذیر کو آندھرا پردیش کا گورنر مقرر کیا گیاہے۔ بتادیںکہ جسٹس نذیر ۴ جنوری ۲۰۲۳کو ریٹائر ہوئےتھے۔ جسٹس عبدالنذیر بابری مسجد ایودھیا تنازعہ پر فیصلہ سنانے والی سپریم کورٹ کی اہم بنچ کا حصہ تھے۔رام جنم بھومی کے حق میں فیصلے سنانے کی وجہ سے اس وقت سرخیوں میں آئے تھے۔ اس کے علاوہ جسٹس عبد النذیر ایک ہی نشست میں تین طلاق دینے اور نوٹ بندی کے معاملہ پربھی مودی حکومت کے فیصلہ کی حمایت کرنے والی بنچ کا بھی حصہ تھے۔انہوں نےگزشتہ دنوں سپریم کورٹ سے سبکدوشی کے موقع پر اپنی الوداعی تقریر میں سنسکرت کا ایک شلوک پڑھنے پر بھی سرخیوں میں آئے تھے۔ جسٹس نذیر ایودھیا کیس کے دوران سب سے زیادہ زیر بحث آئے۔ وہ ایودھیا کیس کی سماعت کرنے والی ۵ججوں کی بنچ کے رکن تھے۔ ان کے علاوہ اس بنچ میں اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس شرد اروند بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ (موجودہ سی جے آئی)، جسٹس اشوک بھوشن بھی شامل تھے۔بنچ نے نومبر ۲۰۱۹ میں متنازعہ زمین پر ہندو فریق کے دعوے کو تسلیم کیا تھا۔ جسٹس نذیر نے بھی رام جنم بھومی کے حق میں فیصلہ سنایا۔ بنچ میں وہ واحد مسلم جج تھے۔اپنی ریٹائرمنٹ سے ٹھیک پہلے جسٹس نذیر نے نریندر مودی حکومت کی طرف سے کی گئی نوٹ بندی کو درست قرار دیاتھا۔ پانچ ججوں کی آئینی بنچ میں جسٹس وی راما سبرامنیم، جسٹس بی آر گو ئی، جسٹس اے ایس بوپنا، جسٹس عبدالنذیر، جسٹس بی وی ناگرتنا شامل تھے۔ جسٹس ناگارتنا کے علاوہ، چار ججوں نے نوٹ بندی کو برقرار رکھتے ہوئے کہا،کہ۵۰۰اور ۱۰۰۰کے نوٹوں کو ختم کرنے کی کارروائی میں کوئی خامی نہیں ہے۔ اقتصادی فیصلوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔اس کے علاوہ اگست ۲۰۱۷میں سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی بنچ نے اکثریت کے ساتھ ایک نشست میں تین طلاق کو غیر آئینی قرار دیاتھا۔ بنچ میں مختلف مذاہب کے ججز شامل تھے۔ جسٹس عبدالنذیر نے کہا تھا کہ تین طلاق غیر آئینی ہے۔جسٹس عبدالنذیر کو فروری ۲۰۱۷میں کرناٹک ہائی کورٹ سے ترقی دے کر سپریم کورٹ میں تعینات کیا گیا تھا۔ وہ جنوری ۲۰۲۳میں سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے۔ سپریم کورٹ میں تعینات ہونے سے پہلے وہ کسی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نہیں رہے تھے۔منگلور سے تعلق رکھنے والے جسٹس عبدالنذیر نے تقریباً ۲۰ سال تک کرناٹک ہائی کورٹ میں بطور وکیل پریکٹس کی۔ سال ۲۰۰۳ میں انہیں ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج مقرر کیا گیا۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر