سنڈے اسٹوری : شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
برطانوی میڈیا ہاؤس ’بی بی سی‘ پر انکم ٹیکس کے چھاپوں، جسے سرکاری اصطلاح میں سروے کہا جا رہا ہے، سے کئی سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، جیسے کہ
۱) کیا واقعی ’بی بی سی‘ نے ٹیکس بچانے کے لیے کوئی ہیراپھیری کی ہے، جیسا کہ انکم ٹیکس کے ذرائع دعویٰ کر رہے ہیں؟
۲) کیا یہ چھاپے ، وزیراعظم نریندر مودی جب گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تب کے مسلم کش فسادات پر بنائی گئی ’ بی بی سی ‘ کی دستاویزی فلم کا، بدلہ لینے کے لیے مارے گیے ہیں ، جیسا کہ بعض حلقے کہہ رہے ہیں ؟
۳)کیا یہ چھاپے ملک اور بیرون ملک کے میڈیا ہاؤسوں کو دھمکانے کے لیے ہیں ، یہ پیغام دینے کے لیے کہ مودی حکومت پر الزامات لگانے اور سوالات اٹھانے کا سلسلہ بند کیا جائے ، ورنہ ایسا ہی حشر ہوگا؟
۴)کیا یہ چھاپے اڈانی مسٔلہ کو ، جو مودی حکومت کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے ،دبانے کے لیے مارے گیے ہیں ، بعض حلقوں سے جیسا کہ دعویٰ کیا جا رہا ہے ؟
۵) یا ، کیا یہ چھاپے کانگریس ، بالخصوص راہل گاندھی اور اپوزیشن کو ایک طرح کا اشارہ دینے کے لیے مارے گیے ہیں ، کہ جو کرنا ہے کر لو ، اب آر پار کی لڑائی شروع ہو گئی ہے؟
مذکورہ سوالات اہم ہیں ، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان سوالات کا تجزیہ سارے معاملے کو واضح کر سکتا ہے ، تو زیادہ درست ہوگا ۔ مذکورہ سوالوں کے جائزہ اور تجزیے کے لیے ایک ایک کر کے ان پر نظر ڈالتے ہیں ۔
پہلا سوال ’ بی بی سی ‘ پر لگائے گیے ٹیکس ہیراپھیری سے متعلق ہے ۔ بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے کہ ’ بی بی سی ‘ کس طرح سے چلتا ہے یا چلایا جاتا ہے اور اس میڈیا ہاؤس کا مالک یا مالکان کون ہیں ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ’ بی بی سی ‘ کا کوئی مالک یا مالکان نہیں ہیں ، پہلے یہ ’ بی بی سی ٹرسٹ ‘ کے ذریعہ چلتا تھا ، اب یہ ’ بی بی سی بورڈ ‘ کے تحت چلتا ہے ، جسے فیصلوں کا اختیار حاصل ہے ، اس بورڈ کا چیئرمین اور ممبران ہوتے ہیں ، ایک ایکزیکیٹیو کمیٹی ہوتی ہے ، جس کا سربراہ ایک ڈائریکٹر جنرل ہوتا ہے ۔ ۱۸ ، اکتوبر ۱۹۲۱ ء میں ’ بی بی سی ‘ کا قیام عمل میں آیا تھا ، یعنی اسے سو برس مکمل ہو چکے ہیں ۔ قیام کے بعد اسے ’ شاہی پروانہ ‘ ملا تھا ، اس کی حیثیت ایک ’ قانونی کارپوریشن ‘ کی ہے ، اس کے کام کاج میں حکومت کا راست کوئی دخل نہیں ہے ۔ اس کا فنڈ ’ لائسنس فیس ‘ سے آتا ہے ، یہ فیس برطانوی عوام پوسٹ کے توسط سے ادا کرتے ہیں ، کچھ فنڈ اس کے کمرشیل آپریشن ، جیسے کہ ’ بی بی سی ورلڈ وائیڈ ‘ اور ’ بی بی سی اسٹوڈیوز ‘ سے حاصل ہوتا ہے ، فنڈ کے لیے باقاعدہ برطانوی پارلیمنٹ منظوری دیتی ہے ۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا ’میڈیا ہاؤس ‘ ہے ، اس میں صرف برطانیہ میں ۲۲ ہزار افراد کام کرتے ہیں ، ساری دنیا میں کام کرنے والے علیحدہ ہیں ۔ اس پر برطانوی حکومت کی ریگولیٹری کارپوریشن ’ آفس آف کمیونیکیشن ‘ ( آف کام ) کی نگرانی رہتی ہے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’ بی بی سی ‘ کا کام کرنے اور فنڈ حاصل کرنے کا طریقہ صاف شفاف ہے ، سب کے سامنے ہے ، اس پر اپنے قیام کے بعد سے لے کر آج تک کسی بھی طرح کی مالی گڑ بڑی کا الزام نہیں لگا ہے ۔ ’ بی بی سی ‘ کو ایک ایسے خبر رساں ادارے کے طور پر جانا اور مانا جاتا ہے جو نہ بدعنوان ہے ، اور نہ ہی ’ گودی میڈیا ‘ کے زمرہ میں آتا ہے ، اس کی خبروں کو شہروں سے لے کر دیہاتوں تک ’ سچ ‘ ہی سمجھا جاتا ہے ’ سچ ‘ کے سوا کچھ نہیں ۔ انکم ٹیکس کے ذرائع کا یہ دعویٰ ہے کہ ۲۰۱۲ء میں کچھ مالی گڑبڑیاں ہوئی ہیں ، ’ بی بی سی ‘ کا کہنا ہے کہ اس نے تفتیش میں پورا تعاون کیا ہے ، اور جلد ہی سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی مالی گڑبڑی ہے بھی ، تو تفتیش کے بعد سب سامنے آجائے گا اور اگر قصور نکلا تو قانون کے مطابق سزا ہوگی ، اور اگر کوئی قصور نہ نکلا تو یہ چھاپے یعنی سروے مزید جگ ہنسائی کا سبب بن جائیں گے ۔ اہم بات یہ ہے کہ اس معاملہ پر ساری دنیا مودی سرکار کی طرف سے اسے میڈیا کی زبان بندی کی ایک کوشش سمجھ رہی ہے ۔ کانگریس نے تو الزام لگا ہی دیا ہے کہ یہ ’ میڈیا کو دھمکانے کی کوشش ہے‘ ، اور بی جے پی پوری قوت سے ’ بی بی سی ‘ کو بدعنوان اور مودی و بھارت مخالف ثابت کرنے کے لیے زور لگائے ہوئے ہے ۔ بی جے پی نے ’ بی بی سی ‘ کا فُل فارم ’ بھرشٹ بکواس کارپوریشن ‘ کے طور پر پیش کر دیا ہے ، یہ اور بات ہے کہ ’ بی بی سی ‘ کو ’ بھرشٹ ‘ اور ’ بکواس ‘ ماننے کے لیے سوائے ’ بھکتوں ‘ کے اور کوئی تیار نہیں نظر آتا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کا وہ بھاشن ، جس میں انہوں نے ’ بی بی سی ‘ کی تعریف کی تھی ، اور اس کی خبروں کو ’ سچ ‘ بتایا تھا ، سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے ۔ مودی نے ۲۰۱۳ء میں کہا تھا کہ ’ دوردرشن ‘ اور ’ آکاش وانی ‘ سے کہیں زیادہ ’ معتبر ‘ تو ’ بی بی سی ‘ ہے ۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ سروے ’ بی بی سی ‘ کی ۲۰۰۲ء کے گجرات فسادات پر ، دو حصوں میں بنائی گئی ڈاکیومینٹری فلم ’ انڈیا : دی مودی کوئشچن ‘ کا بدلہ ہے ۔ یہ فلم ، جس میں گجرات فسادات میں ، اُس وقت کے وزیراعلیٰ گجرات نریندر مودی کے ، کردار کی تفتیش شامل ہے ، اور یہ بتایا گیا ہے کہ مودی نے فسادیوں کو مکمل چھوٹ دینے کے احکامات دیے تھے ، بھارت میں سوشل میڈیا پر دکھانے سے روک دی گئی ہے ۔ یہ سمجھ لیں کہ اس پر پابندی لگی ہوئی ہے ۔ ڈاکیومینٹری کے دوسرے حصے میں مودی کے وزیراعظم کی حیثیت سے مسلم اقلیت کے ساتھ برتاؤ کو پیش کیا گیا ہے ۔ یہ ڈاکیومینٹری ’ بی بی سی ‘ نے بھارت بلکہ ایشیا میں کہیں بھی ریلیز نہیں کی ہے ، لیکن حکومتِ ہند کے ذریعے اس کی ریلیز روکے جانے کے بعد ، اسے دیکھنے کے لیے ، ساری دنیا جیسے اپنے قدموں پراٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔ ملک کی متعدد یونیورسٹیوں میں طلبہ و طالبات نے باقاعدہ اعلان کر کے اسے دیکھا اور دکھایا ، یونیورسٹی کے حکام کی ہدایتیں ٹھکرائیں اور پولیس کے لاٹھی ڈنڈے تک کھائے ، گرفتار بھی ہوئے ۔ ’ بی بی سی ‘ کی یہ ڈاکیومینٹری گجرات فسادات کا سارا منظرنامہ ، جسے قالین کے نیچے چھپانے کی شدید کوششیں کی گئی تھیں ، سامنے لے آئیں ، اور ایک بار پھر مودی اور بی جے پی کا وہ چہرہ دنیا کے سامنے آگیا ، جس پر غازہ پوڈر پوت دیا گیا تھا ۔ حالانکہ مودی سرکار کا اور بی جے پی کے لیڈروں کا یہ کہنا ہے کہ ’ بی بی سی ‘ کی ڈاکیومینٹری ’ جھوٹ ‘ ہے ، مودی اور بھارت کی ساکھ کوساری دنیا میں خراب کرنے کی سازش ہے اور اس کے ذریعے ملک کے مختلف فرقوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے ، لیکن اس ڈاکیومینٹری میں ہے کیا ، کیوں یہ بھارت اور مودی کے خلاف سازش ہے ، یہ بتانے تک سے یہ سرکار کترا رہی ہے ۔ اس ڈاکیومینٹری نے کہیں نہ کہیں اس حکومت کو دہلا دیا ہے ، نوجوانوں کا اس ڈکیومینٹری کو ہر حال میں دیکھنے کے لیے جوش دیکھ کر یہ حکومت بوکھلا سی گئی ہے ، اور اسی بوکھلاہٹ میں سروے کی یہ کارروائی کی گئی ہے ۔ یہ ہم نہیں اپوزیشن اور سیاست کے ماہرین کا کہنا ہے ، بلکہ کہا تو یہاں تک جارہا ہے کہ ’ بی بی سی ‘ کی ڈاکیومینٹری اور گوتم اڈانی پر ’ ہنڈن برگ ریسرچ ‘ کے الزامات نے مودی سرکار کو ڈرا دیا ہے ، اوراسی لیے وہ ایسے اقدامات کر رہی ہے جس سے اس کی مزید کرکری ہو رہی ہے ۔ ویسے ایک بات تو ہے ، یہ سرکار کسی سوال کا جواب دینے کے لیے آمادہ نہیں ہے ۔ راہل گاندھی کے کسی سوال کا جواب سامنے نہیں آیا ہے ، اور شاید سامنے آئے گا بھی نہیں ۔ اور یہ بالکل نہیں چاہتی کہ میڈیا کوئی سوال کرے ۔ لہٰذا ایک حلقہ یہ کہہ رہا ہے کہ ’ بی بی سی ‘ پر چھاپہ کی ایک وجہ اُس میڈیا کو ، جس نے سوال کرنا ابھی بھی بند نہیں کیے ہیں ، یہ اشارہ دینا ہے کہ ’ زبان بند نہیں کی تو نتیجہ ایسا ہی نکلے گا ۔‘ اگر گھوم کر پیچھے دیکھیں تو اس ملک میں میڈیا کو تقریباً خاموش کر دیا گیا ہے ، آزادیٔ صحافت اب بچی نہیں ہے ۔ ورلڈ فریڈم پریس انڈیکس میں ۱۸۰ ملکوں میں بھارت ۱۵۰ ویں مقام پر ہے ! یہ ہے ’ آزادیٔ صحافت ‘ کی حقیقی تصویر ۔ یہاں کئی میڈیا اداروں پر چھاپے پڑ چکے ہیں ، جیسے کہ این ڈی ٹی وی ، کوئنٹ ، بھارت سماچار ، نیوز کلکس ، نیوزلانڈری ، دی وائر اور ایچ ڈبلیو نیوز وغیرہ ۔ این ڈای ٹی وی اور کوئنٹ چھاپوں کے بعد گوتم اڈانی کی ملکیت بن گیے ہیں ۔ اب کوشش ہے کہ کسی طرح رویش کمار ، نوین کمار ، ابھیسار شرما ، پونیہ پرسون جوشی ، ساکشی جوشی اور اجیت انجم جیسوں کی زبانیں بند کر دی جائیں ۔ طریقے تلاش کیے جا رہے ہیں ، دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ تو ممکن ہے کہ یہ سروے ان سب کو ، اور ان ہی جیسے دوسروں کو اور غیر ملکی میڈیا کو بھی ، ڈرانے کی کوشش ہوں ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اڈانی کے معاملہ سے لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی جا رہی ہو ۔ اڈانی معاملہ نے مودی سرکار کو کٹ گھڑے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے ، بھلے وہ نہ مانے ۔ اڈانی نے اپنی کاروباری سرگرمیوں کے لیے جو طریقہ استعمال کیا ہے اس نے مودی کی ساکھ کو ، جسے سنگھ پریوار ، بی جے پی ، بھکت اور سارے بھاجپائی بے داغ سمجھتے آ رہے ہیں ، داغدار کر دیا ہے ۔ ساکھ خراب ہوئی ہے اور خراب ہوتی جا رہی ہے ۔ ممکن ہے کہ ان سروے کی اِن کارروائیوں سے مودی سرکار نے ، راہل گاندھی اور اپوزیشن کو اور اُس میڈیا کو جو ہنوز سر اٹھائے کھڑا ہوا ہے ’ آر پار کی لڑائی ‘ کا اشارہ دیا ہو ! لیکن اگر ایسا ہے بھی تو یہ لڑائی آسان نہیں ہوگی کیونکہ اڈانی معاملہ اتنی جلدی ٹھنڈا نہیں ہونے والا ، اور نہ ہی ’ بی بی سی ‘ کی ڈاکیومینٹری واپس ہونے والی ہے ، ابھی ان موضوعات پر اپوزیشن مزید حملے کرے گی ، اور تیز حملے کرے گی ۔ یہی نہیں غیرملکوں سے پریس کی آزادی کے لیے آوازیں اٹھنے لگی ہیں ، امریکہ نے چھاپوں کی بات پر ’ پریس کی آزادی ‘ کو پیش پیش رکھا ہے یا یہ کہہ لیں اسے ہر بات پر ترجیح دی ہے ۔ سارا غیر ملکی میڈیا اور یہاں ملک میں پریس کی بڑی بڑی تنظیمیں ، چھاپوں یعنی سروے کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں ۔ سچ کہیں تو انکم ٹیکس کی یہ کارروائی مودی حکومت کی پریشانی کم کرنے کی بجائے ، پریشانی بڑھا گئی ہے ۔
0 Comments