Latest News

ہاں ! میں مولانا سید ارشد مدنی ہوں۔۔۔ نازش ہما قاسمی۔

جی ۔ رہبر، سالار، قائد، سربراہ، رہنما، مرشد، گرو، پیشوا، مقتدا، لیڈر، سردار، اُپدیشک، ناصح، واعظ، استاد، معلم، مدرس، پادھا، شکشک، ٹیچر، دانشور، صاحب علم وحکمت، صاحب بصیرت، صاحب فراست، گیانی، نالیجبل، ذکی، ذہین، تیز فہم، دانا، عقل مند، دور اندیش، ہوشیار، منکسر مزاج، خلیق، متواضع، بے باک، بے خوف، نڈر، صاف گو، حق گو، راست گو،حق آشنا، حقیقت آشنا، حقیقت شناس، سچا، صادق القول، توحید پرست، حق پرست، موحد، خدا رسیدہ، داعی، مقدس، عابد، زاہد، تپسوی، درویش، پارسا، خدا شناس، عبادت گزار، دین دار، عارف باللہ، بزرگ، پرہیزگار، پاک دامن، صاف باطن، پاک سیرت، صالح، پاکباز، صاحب تقویٰ، تہجد گزار، دھرم چاری، شریف، عظیم، محترم، نیک نام،نیک دل، جہاں رسیدہ، باعزت، باوقار، باتمیز، باشعور، عالی نسب،خوش حال، صاحب ثروت، فارغ البال، خوش طبع، خوش مزاج، خوش ذوق، خوش مذاق، زندہ دل، شائستہ، مہذب، آبرومند، اقبال مند، ذی مرتبت، معتبر، لائق احترام، بھلا مانس، مہمان نواز، فیاض، سخی، تواضع وخاطرداری کرنے والا، آئوبھگت کرنے والا، اہل دل، درد مند، محسن، مربی، سرپرست، ولی، ادیب، سخن ور، سخن داں، سخن شناس، ماہر ز بان، انشاپرداز، مصنف، عالم، فاضل، مفسر، محدث ، صدر جمعیۃ علماء ہند و استاذ دارالعلوم دیوبند وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند، امیرالہند، حضرت مولانا سید ارشد مدنی ابن مجاہد آزادی ہند شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ ہوں۔ 
میری پیدائش سرزمین علم و ہنر، گہوارہ علم وادب سرزمین دیوبند میں آزادی ہند سے چھ سال قبل مجاہد آزادی ہند سرخیل علمائے دیوبند، اسیر مالٹا حسین احمد مدنی کے یہاں ۱۳۶۰ ہجری بمطابق ۱۹۴۱ میں ہوئی۔ تعلیم کا آغاز پانچ سال کی عمر میں کیا، استاذ اول مولانا قاری اصغر علی صاحب تھےآٹھ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرلیا اور آسام کے بانسکنڈی میں حضرت والد محترم کو پہلی محراب سنایا، عربی تعلیم کا آغاز ۱۹۵۵ سے ہوا، دارالعلوم دیوبند میں ۱۹۵۹ میں داخلہ لیا جہاں عربی زبان میں عبور ومہارت کے لیے مولانا وحیدالزماں کیرانوی ؒ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، پھر عربی زبان میں مہارت تامہ کے لیے شیخ عبدالوہاب، محمود عبدالوہاب مصری رحمہمااللہ سے استفادہ کیا۔
دارالعلوم سے درس نظامی کی تکمیل ۱۹۶۳ میں ہوئی، معروف اساتذہ کرام میں مولانا سید فخرالدین مرادآبادی، مولانا اعزاز علی امروہوی، علامہ ابراہیم بلیاوی، مولانا جلیل کیروانی، مولانا اختر حسین دیوبندی علیہم الرحمہ شامل ہیں۔ دینی علوم سے فراغت کے بعد بیعت سلوک کے منازل طے کرنے کےلیے برادر کبیر فدائے ملت حضرت مولانا اسعد مدنی کی رہنمائی حاصل کی اور قلیل عرصے میں ہی بیعت وخلافت کی اجازت سے ہمکنار ہوا، تصوف وسلوک میں مزید پختگی کے لیے مدینہ شریف تشریف لے گیا اور وہاں ۱۴ ماہ تک مسلسل حرم نبیﷺ میں گزار کر روحانیت حاصل کی۔ حصول علم سے فراغت اور سلوک کے منازل طے کرنے کے بعد ۱۹۶۵ میں مدرسہ قاسمیہ گیا بہار، سے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیا اور نونہالان ملت کو علوم نبوی کے چشمہ حکمت ومعرفت سے سیراب کرنا شروع کیا۔ ۱۹۶۹ میں فخر المحدثین کے ایماء وارشاد پر جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد کی منصب تدریس پر فائز ہوا۔ ۱۹۸۲ میں ارکان شوریٰ کی دعوت پر دارالعلوم دیوبند کی مسند تدریس سنبھالی، اس وقت سے آج تک تقریباً ۴۱ برس سے ایشیاء کی عظیم اسلامی یونیورسٹی اور مسلمانان ہند کے فخروآبرو ،دارالعلوم دیوبند میں حدیث شریف کا درس دے رہا ہوں۔ اس درمیان دارالعلوم دیوبند میں نائب ناظم تعلیمات، ناظم تعلیمات کا عہدہ بھی بحسن وخوبی سنبھالا اور دارالعلوم کے تعلیمی وتربیتی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیا ۔۲۳؍ مارچ ۱۹۸۲ کو قضیہ دارالعلوم پیش آیا اور دارالعلوم دو حصوں میں بٹ گیا، ۱۹۸۴ میں جمعیۃ کی مجلس عاملہ کا رکن بنایاگیا، ۲۰۰۶ میں فدائے ملت کے وصال کے بعد صدر منتخب ہوا، ۲۰۰۸ میں جمعیۃ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ایک دھڑے کے صدر قاری عثمان صاحب منصور پوریؒ بنائے گئے اور دوسرے دھڑے کا میں رہا۔ قاری عثمان منصور پوری کے وصال کے بعد بھتیجے محمود مدنی صدر منتخب ہوئے۔ حضرت مفتی سعید پالنپوریؒ (شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند) کے وصال کے بعد اکابرین نے مجھ پر بھروسہ واعتماد کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین کا عہدہ تفویض کیا جسے بحسن وخوبی نبھارہا ہوں۔ تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا بھی شوق اکابرین علمائے دیوبند سے ورثے میں ملا، کئی کتابوں کو تحقیق و تعلیق کے ساتھ شائع کرنے کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ اتنا ہی نہیں دینی ماحول میں عصری تعلیم کا نظام قائم کیا اور ۱۹۹۷ میں مدنی چیریٹیبل ٹرسٹ کی بنیاد ڈالی، اس ٹرسٹ کے تحت مدارس ومکاتب کا ہریانہ، پنجاب، ہماچل پردیش سمیت دیگر ریاستوں میں جال بچھا ہوا ہے جہاں سے بڑی تعداد میں تشنگان علوم دینیہ وعصریہ فیضاب ہورہے ہیں۔ 
ہاں میں وہی مولانا سید ارشد مدنی ہوں جو مسلمانان ہند کی آواز ملک وبیرون ممالک میں انتہائی بے باکی کے ساتھ اُٹھاتا رہتا ہوں، ملک کی اقلیتوں بشمول مسلمانوں کو ’جمہوری‘ حق دلانے کےلیے ہمیشہ کوشاں رہتا ہوں، عمر کے اس پڑاؤ میں بھی مسلسل فکرمند رہتا ہوں ، مسلمانوں کے تحفظ وبقاء کے لیے حکومت وقت ، ارباب اقتدار، آر ایس ایس لیڈران سے ملاقاتیں تک کرچکا ہوں ، ہاں میں وہی ارشد مدنی ہوں جس نے ۱۲؍ فروری کو دہلی کے رام لیلا میدان میں جمعیۃ علماء ہند کے ۳۴ ویں اجلاس عام میں مسلمانان ہند اور سربراہان مذاہب ومسالک سے طویل خطاب کرتے ہوئے اللہ اوم ، آدم ’منو ‘کو ایک بتایا، منو کی تعلیمات کو خالص توحید پرمبنی قرار دے کر ’گھر واپسی‘ کا نعرہ لگانے والوں کو کرارا جواب دیتے ہوئے کہاکہ ’اگر گھر واپسی ہی کرنی ہے تو انہیں کرنی چاہئے ہم تو پہلے سے ہی ’منو‘ کی چوکھٹ پر اپنا ماتھا رکھے ہوئے ہیں۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا تھا بی جے پی حکومت سے قبل ۳۰ کروڑ مسلمانوں کی گھر واپسی کی آواز پہلے کبھی نہیں اُٹھی تھی، اس حکومت کے آنے کے بعد فرقہ پرست ذہنیت اتنی آزاد ہوگئی کہ وہ یہ سمجھتی ہے کہ ہم ۳۰ کروڑ مسلمانوں کو ’گھر واپس‘ (دوبارہ ہندومذہب) کی طرف لے جائیں گے، اس لیے کہ ہندو ان کا گھر ہے، ان کے باپ دادا ہندو تھے۔ میرا یہ کہنا ہے کہ آدم علیہ السلام جسے منو کہاجاتا ہے وہ سرزمین ہند تشریف لائے، ان کی تعلیمات توحید خالص پر مبنی تھی وہ موحد تھے اور ’اوم‘ ایک اللہ کی پرستش کرتے تھے، اس کے سوا نہ کسی کو پوجتے تھے نہ مانتے تھے یہ ہمارا عقیدہ ہے ،اسلام کو ئی نیا دین نہیں ہے، یہ وہی دین ہے جو حضرت آدم ؑ سے شروع ہوتا ہے، آدم سے لے کر نبی آخرالزماں ﷺ تک دین ایک ہی ہے اور آدم علیہ السلام ہمارے پروَج تھے، آبا واجداد تھے، ہمارے ہی نہیں؛ بلکہ تمام انسانوں کے منو، آدم آباؤ واجداد ہیں، ہم آدم سے آدمی کہلائے اور منو سے منش قرار دئیے گئے، ہم ایک ہی آدم کی سنتان واولاد ہیں اور اسی آدم کے توحید خالص پر ایمان رکھتے ہیں پھر ہمیں گھر واپسی کی ضرورت ہی نہیں ۔ 
میری اس تقریر کے بعد وہیں اسٹیج پر ہی جین دھرم کے مذہبی رہنما نے اعتراض کیا، اور غلط زبان استعمال کرتے ہوئے میرے بیان کو بیہودہ قرار دیا اور دعوت مناظرہ دینے لگا، میڈیا میں بھی شور شرابہ اور ہنگامہ برپا ہے، کچھ لوگ اسے غیر ضروری بیان قرار دے رہے ہیں، کچھ کا کہنا ہے کہ سدبھاؤنا کے اسٹیج سے امن وایکتا کی بات ہونی چاہئے تھی ، کچھ بیان کی حمایت کررہے ہیں، کچھ مخالفت، اور یہ دونوں سلسلہ ہنوز جاری ہے؛ لیکن اتنے بڑے مجمع میں، نعرہ مستانہ اور توحید خالص کی دعوت دینے کا مقصد دوسروں کے مذاہب و ادیان کو برا بھلا کہے بغیر دین اسلام کی حقانیت واضح کرنا، گھر واپسی کا نعرہ لگانے والوں کو منو (آدم) کی تعلیمات سے روشناس کرانا، ملک میں پھیلی انارکی کو دور کرنا، امن وامان کی فضاء برقرار رکھنا، غیر ضروری چیزوں میں الجھنے کے بجائے درست سمت میں سوچنے کی راہ فراہم کرنا تھا اور میں الحمد للہ اپنے مقصد میں صد فیصد کامیاب ہوں۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر