Latest News

عالمی یومِ خواتین : آزادئی نسواں اور حقوقِ نسواں کی تحریکیں۔

ڈاکٹر شاہد زبیری۔
۸ مارچ کا دن پوری دنیا میں' عالمی یومِ خواتین' کے طور پر منایا جا تا ہے ۔آج کا دن دنیا بھر کی خواتین مذہب ،ذات پات ، زبان اور جغرافیائی حدود سے بالا تر ہو کر مناتی ہیں،صنفی امتیاز ،عدم مساوات ،ذہنی اور جسمانی تشدّد اورآبرو ریزی کےخلاف جدو جہد کے علاوہ زندگی کے ہر میدان میں خواتین کی آزادی اور خواتین کے حقوق کی گونج سنائی دیتی ہے ۔قدیم تاریخ کے حوالوں سے آزادئی نسواں اور حقوقِ نسواں کا دعویٰ بیشتر مذاہب کرتے ہیں خود ہندوستان میں ویدک عہد کو خواتین کی آزادی اور حقوق کے لحاظ سے زرّیں عہد بتا یا جا تا ہے اسلام کے حوالہ سے بھی قرونِ اولیٰ میں خواتین کے حقوق کی بات کہی جا تی ہے اور قرآن میں بھی خواتین کے حقوق کا زکر کیا گیا ہے لیکن آزادئی نسواں اور حقوقِ نسواں کا تصوّر اس قدیم تصوّر سے الگ ہے ۔جدید تصوّر میں خواتین کیساتھ صنفی بنیاد پر عدم مساوات اور صنفی امتیاز کی کسی بھی سطح پر کوئی گنجا ئش نہیں ہے ،زمین جائداد کے حقوق ،ملازمتوں کے حقوق ، اجرت کا مساوی حق ،والدین کے ترکہ اور میراث میںمردوں کے مساوی حقوق ، اولاد کی پرورش ،اور گھر کی ذمّہ داری نبھا نے میں مردو زن میں مساوات ،آ ئینی حقوق ،شہریت اور ووٹ کا حق،حتیٰ کہ جسم پر مکمل اختیار کا حق بھی خواتین چاہتی ہیں ۔پڑوسی اسلامی ملک میں تو خواتین جسم پر مکمل اختیار کے حق کو لیکر تحریک چلا چکی ہیں اور پاکستان کی سڑکوں پر 'میرا جسم میری مرضی' کے نعرے بلند کرچکی ہیں ۔جدید عہد میں اس تصوّر کی بنیادامریکہ میں سوشلسٹ پارٹی کی تحریک پر28فروری 1909کو اس دن پڑگئی تھی جب پہلی مرتبہ یہ دن منایا گیا تھا مشہور جرمن خاتون ایکٹیوسٹ کلارا زیٹکن نے پہلی آواز بلند کی تھی اور اس خاتون کی انتھک کوششوں سے انٹر نیشنل سوشلسٹ کانگریس نے 19مارچ 1911کو جرمنی ،ڈینمارک اور آسٹریلیا میں منایا گیا 1917میں اس دن روس کی خواتین نے روٹی روزی اور کپڑے کیلئے تاریخی ہڑتال کی ہڑتال کی تھی ۔ ان سب کوششوں کے پیشِ نظر 1921میں 8مارچ کو عالمی یومِ خواتین قرار دیا گیا ۔اگر ہم جدید ہندوستان میں آزادئی نسواں اور حقوقِ نسواں کی آوازوں کی بات کریں تو یہاں انگریزی عہد میں پہلی آواز اور خواتین کے تعلیمی حق پر اٹھنے والی آواز مشہور خاتون ساوتری با پھولے جو جیوتی با پھولے کی اہلیہ تھی ان کی آواز تھی ان کی آواز میں آواز ملانے والی پہلی مسلم خاتون فاطمہ شیخ تھیں دونوں خواتین کا تعلق مہاراشٹر سے تھا اور دونوں نے خواتین کی تعلیم کا انتظام بھی کیا اور خواتین کی تعلیم کے آئینی حقوق کی جنگ بھی لڑی ۔اس عہد میں ہندوستانی خواتین کی حالت ناگفتہ بہ تھی خواتین صنفی امتیاز ،عدم مساوات کے علاوہ ہر سطح پرمختلف قسم مسائل سے دوچار تھیں ا ور ظلم و نا انصافی کا شکار تھیں ،مشہور مصلح راجہ رام موہن رائے جو برہمو سماج کے بانی تھے اور آخیر میں عیسائی ہو گئے تھے انہوں نے خواتین کیساتھ اس ناروا اور غیر انسانی سلوک کیخلاف آواز بلند کی، خواتین کی تعلیم پر زور دیا ، ہندو خواتین کو شوہر کی چتا کیساتھ جلائے جا نیکی انسانیت سوز رسم کو ختم کرا یا اور اس کیخلاف 1829میںقانون بنوایا اور ہندو بیوہ کو بھی زندہ رہنے کاحق دلایا ،ایشور چندر ودا ساگر کی کوششوں سے بیواﺅں کی شادی کرانے کیلئے 1856 میں قانون بنا یا گیا بچیوں کی شادی رکوانے کی تحریک شروع ہوئی اور لڑکی کی شادی کی عمر کم از کم 10سال قرار دی گئی اور اس کو قانونی درجہ ملا ۔سرسیّد ؒ کے ساتھی دست راست حالی نے بھی مسلم بیواﺅں کی شادی کو لیکر سماج کے رجحانات کو بدلنے کیلئے شاعری کوہتھیار بنا یا اور بیوہ کی مناجات جیسی تاریخی نظم لکھی ،ڈپٹی نذیر نے ایک سے زائد ناول لکھے جنمیں مسلم خواتین کے مسائل کو اجا گر کیا اس سلسلہ کا ان کا مشہور ناول مراة العروس ہے جسمیں اکبری اور اصغری دو بہنوں کے ذریعہ خواتین کی تعلیم کی اہمیت کو اجا گر کیا گیا ہے ۔سخواتین میں بھوپال کی آخری مسلم خاتون حکمراں سلطان جہاں جو بیگم بھوپال کے نام سے مشہور تھیں انہوں نے مسلم خواتین کی تعلیم اور ترقی کیلئے کام کئے وہ باقا عدہ دربار لگا تی تھیں ،مولانا شوکت علی مولانا محمد علی جوہر کی والدہ بی امّاں جنکا پورانام عبادی بانو تھا انہوں نے مسلم خواتین کی سیاسی بیداری کیلئے کوشاں رہیں،مدراس ( چنّئی) کی ڈاکٹرمٹھو لکشمی ریڈی،بڑودہ کی مہارانی جمنا بائی اور بلبلِ ہند سروجنی نائڈو اور مسز اینی بیسنٹ آزادئی نسواں اور حقوقِ نسواں کی علم بلند کیا۔
ہندوستان میں خواتین کی پہلی تنظیم ویمنس انڈین ایسو سی ایشن تھی جس کی بنیاد مسز اینی بیسنٹ نے رکھی تھی ۔خواتین کی تعلیمی ترقی ،مردوں کے مساوی حقوق کا حصول اور خواتین کی بابت فرسودہ خیالی اور رجعت پسندانہ فکر کاخاتمہ اور خواتین کی بلا روک ٹوک آزادی اس تنظیم کے بنیادی مقاصد میں شامل تھے ۔مسز اینی بیسنٹ کی رہنمائی میں اس تنظیم نے خواتین کے ووٹ کے حق کیلئے تحریک چلائی ۔اس تحریک کی مقبہو لیت کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہیکہ 1924میں ملک بھر میں اس کی 51شاخیں ،18مراکز اور کارکنان کی تعداد 2ہزار 700تھی اسکا اپنا ایک رسالہ '' استری دھرم '' شائع ہوتا تھا جو اس تنظیم کا آرگن تھا ۔اس تنظیم نے مدراس (چنّئی) میں دیو داسی کی رسم ختم کر نے اور بے سہارا خواتین کیلئے راحت گھر (ناری نکیتن/ریسکیو ہوم) قائم کئے ۔
1925میں نیشنل کونسل آف ویمنس آف انڈیا کی بنیا د پڑی اس کا الحاق عالمی کونسل آف ویمنس سے تھا ۔اس کے یونٹ دہلی، ممبئی ،بہار اور بنگال وغیرہ میں تھے اسکا ایک ماہانہ خبر نامہ ( بلٹن) نکلتا تھا جسمیں ہندوستان کے علاوہ دنیا بھی میں ہونے والی خواتین کی سر گرمیوں کی خبریں شائع کیجا تی تھیں اس کی ممبران میں زیادہ تر انگریزی داں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین تھیں جو رﺅسا اور سرکاری افسروںکی بیگمات تھیںاس تنظیم کا اثر ہندوستان کی عام خواتین تک نہیں تھا ۔ 1926 میںآل انڈیا ویمنس کانفرنس وجود میں آئی اس کا پہلا اجلاس 1927کو ہوا اس کا ایجنڈہ کافی وسیع تھا جو خواتین کی تعلیم اورسماجی ترقیسے لیکر قومی اتحاد بین الاقوامی معاملات تک پھیلا ہوا تھا یہ تنظیم آج بھی موجود ہے اور اضلاع میں اس کی شاخیں ہیں سہارنپور کی رہنے والی کنتی پال شرما اس کی قومی صدر رہی ہیں جنکا حال ہی میں انتقال ہوا ہے وہ ایم پی راگھو لکھنپال کی دادی اور آنجہانی نربھے پال شرما کی والدہ اور مدھیہ پردیش کے سابق وزیرِ اعلیٰ کمل ناتھ کی خوش دامن (ساس) تھیں ۔اپنے وقت کے لحاظ سے ملک بھر میں اس تنظیم کا دائرہ وسیع تھا اور سیاسی معاملات میں غیر جانبدار اور رکنیت کے معاملہ میں فرقہ واریت سے دور تھی اسکا ایک مجلّہ'' روشنی''نکلتا رہا ہے آزادی کے بعد بھی یہ تنظیم ملک میں کام کررہی ہے ۔آزادی سے پہلے کی خواتین تنظیموں میں جہاں مسلم لیگ اور ہندو مہا سبھا کے خواتین کے سیاسی ونگ تھے ۔عیسائی فرقہ کی خواتین کی اصلاح کیلئے نیشنل وائی۔ ڈبلو۔سی ۔اے تنظیم بھی تھی جسکا دائرہ عیسائی خواتین تک ہی محدود تھا ۔آزادی کے بعد جب ملک کے آئین کا مسئلہ در پیش ہوا تو آئین ساز کمیٹی میں 15خواتین کو بھی نمائندگی دی گئی جسمیں صرف ایم مسلم خاتون بیگم اعزاز رسول تھی ۔ان کے علاوہ باقی ممبران میں امّو سوامی ناتھن ،دکشنینانی ویلا یدھ (دلت ) ،،درگا بائی ،ہنسا جیو راج،کملا چودھری،لیلا رائے ،مالتی چودھری ،پورنیما بنر جی ، راجکماری امرت کو ر،رینوکا،سروجنی نائڈو ،سچیتا کرپلانی ،وجے لکشمی پنڈت اور اینی ماسکرون کا نام شامل ہے۔
 تمام سیاسی تنظیموں کے خواتین ونگ ہیں مذہبی تنظیموں کے بھی اپنے خواتین ونگ ہیں وشو ہندو پریشد کی درگا واہنی اور آر ایس ایس کا راشٹریہ سیویکا سمیتی بھی موجود ہے ۔ یہ سب خواتین تنظیمیں اپنی اپنی جگہ خواتین کے مسائل اور حقوق کیلئے کام کررہی ہیں ۔آئین کے لحاظ سے ہندوستان میںخواتین کو مردوں کی برابری کا درجہ حاصل ہے لیکن سماج میں خواتین کو مردوں کے مساوی درجہ ،گھریلو تشدد ،صنفی امتیا ز ،مردوں کے مساوی اجرت اور عزت و آبرو اور آزادی کیساتھ جینے کے حق کی جنگ آج بھی جاری ہے جس کیلئے ملک میں مختلف سماجی تنظیمیں کام کرر ہی ہیں۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر