Latest News

لو جہاد قانون پر فوری اسٹے سے سپریم کورٹ کا انکار، چیف جسٹس کی عرضداشتوں پر جلد سماعت کیئے جانے کی یقین دہانی ، ریاستوں کو جوابی حلف نامہ داخل کرنے کے لیے مزید تین ہفتوں کا وقت۔

نئی دہلی: لو جہاد قانون کی آئینی حیثیت اور مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر ہورہے تبدیلی مذہب کے خلاف داخل پٹیشن پر آج سپریم کورٹ آف انڈیا میں چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس نرسہما اور جسٹس جے پی پاردی والا کے روبرو سماعت عمل میں آئی جس کے دورا ن سینئر وکلاء سی یو سنگھ، دشینت دوے، اندرا جئے سنگھ نے عدالت کو بتایاکہ گذشتہ سماعت پر مبینہ تبدیل مذہب کو روکنے والے قانون بنانے والی ریاستوںکو جواب داخل کرنے کا عدالت نے حکم دیا تھا لیکن ان ریاستوں میں سے صرف ہماچل پردیش نے جواب داخل کیا ہے اور کسی بھی ریاست نے جواب داخل نہیں کیا ۔دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے جمعہ کو ریاستوں کو مذہب کی تبدیلی کے مخالف قوانین کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر جوابی حلف نامہ داخل کرنے کے لیے مزید تین ہفتوں کا وقت دیا۔ ادھر وکلاء نے عدالت سے لوجہاد قانون پر فوری اسٹے کی گذارش کی لیکن عدالت نے ان کی گذارشات کو قبول نہ کرتے ہوئے اور کہا کہ عدالت اس مقدمہ کی جلداز جلد سماعت کریگی۔آج عدالت میں مرکزی حکومت کی جانب سے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا پیش ہوئے اور کہا کہ وہ مرکزی حکومت کی جانب سے معاملے کی اگلے سماعت سے قبل جواب داخل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ دوران سماعت سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ نے عدالت سے کہا کہ ابتک دس ریاستیں لو جہاد قانون بنا چکی ہیں اور مزید ریاستیں ایسے قوانین بنانے پر غور کررہی ہیں، مہاراشٹر میںاس طرح کے قانون بنانے کے لیئے احتجاج اور مطالبہ کیا جارہا ہے لہذ ا عدالت کو معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اس مقدمہ کی جلداز جلد سماعت کرنا چاہئے تاکہ مزید ریاستوں کو ایسے قانون بنانے سے روکا جاسکے۔ایڈوکیٹ دشینت دوے نے عدالت کو بتایا کہ اتر پردیش میں کرسچن مشنری اسپتال بیکار پڑے ہوئے ہیں ،اور انہیں تبدیلئی مذہب کا الزام لگا کر کام نہیںکرنے دیا جارہاہے بلکہ انہیں مسلسل پریشان کیا جارہا ہے جس پر فوری قدغن لگانا ضروری ہے۔وکلا ء کو چیف جسٹس نے کہا کہ اگلے چند دنوں تک سپریم کورٹ میں آئینی بینچ رہے گی لہذ آئینی بینچ کے اختتام کے فوراً بعد اس مقدمہ کی سماعت کی جائے گی، چیف جسٹس آ ف انڈیا نے کہا کہ فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد ہی ان قوانین پر اسٹے دیئے جانے کے تعلق سے عدالت کچھ فیصلہ کریگی۔دوران سماعت عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ شاہد ندیم اور ایڈوکیٹ سیف ضیاء، ایڈوکیٹ مجاہد احمد ودیگر موجود تھے۔واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند(ارشد مدنی) سمیت مختلف مسلم جماعتوں اور اشخاص نے ہندوستان کی مختلف ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے تبدیلی مذہب (لو جہاد) قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے جبکہ اشوینی کمار اپادھیائے نامی ایڈوکیٹ نے مفاد عامہ کی عرضداشت داخل کرکے عدالت سے درخواست کی ہیکہ وہ مسلمانوں اور کرسچنس کی جانب سے مبینہ جبراً کرائے جارہے تبدیلی مذہب پر کارروائی کرے ۔گذشتہ سماعت پر عدالت نے نو ٹ کیا تھاکہ لو جہاد قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی عرضداشتیں الہ آباد ہائی کورٹ میں پانچ، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں سات، گجرات ہائی کورٹ میں دو، جھارکھنڈ ہائی کورٹ میں دو، ہماچل پردیش ہائی کور ٹ میں چار، کرناٹک ہائی کورٹ میں ایک؍ زیر سماعت ہے۔خیال رہے کہ ہندوستان کی پانچ مختلف ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے تبدیلی مذہب (لو جہاد) قانون کی آئینی حیثیت کو جمعیۃ علماء ہند نے آئین ہند کے آرٹیکل ۳۲؍ کے تحت مفاد عامہ کے ذریعہ سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی ہے جسے عدالت نے سماعت کے لیئے قبول کرتے ہوئے ریاستی حکومتوں کو جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔جمعیۃ علماء ہندکی یہ پٹیشن قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے صدر جمعیۃعلماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل کی ہے، پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ایسے قانون کو بنانے کا مقصد درحقیقت ہندو اور مسلمان کے درمیان ہونے والی بین المذہب شادیوں کو روکنا ہے جو کہ آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کے خلاف ہے ،جس کا التزام آئین میں موجود ہے۔عرضداشت میں مزید کہا گیا ہیکہ کہ اس قانون کے ذریعہ مذہبی اور ذاتی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی ہے اور برادران وطن میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے لہذا سپریم کورٹ کو مداخلت کرکے ریاستوں کو ایسےقانون بنانے سے روکنا چاہئے نیز جن ریاستوں نے ایسے قانون بنائے ہیں انہیں ختم کردیا جاناچاہئے۔عرضداشت میں مزید کہا گیا کہ لو جہاد قانون بنانے کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہیکہ بین المذاہب جوڑوں کو پریشان کیاجائے تاکہ ایسی شادیوں پر روک لگ سکے۔عرضداشت میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ لو جہاد قانون کے ذریعہ ایک بڑی تعداد میں مسلمانوں کو گرفتار کیاجاچکا ہے ا ور یہ سلسلہ جاری ہے لہذا مسلمانوں کے خلاف بنائے گئے اس غیر آئینی قانو ن کو ختم کرنا چاہئے نیز سپریم کورٹ کو تمام ریاستوں کو حکم دینا چاہئے کہ وہ ایسے قانون بنانے سے گریز کریں ۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر