۱۵ اپریل کو، گینگسٹر سے سیاستدان بنے عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف کو معمول کے طبی معائنے کے لیے پریاگ راج کے مقامی کولون اسپتال لے جایا جا رہا تھا۔ اس وقت تین نوجوانوں نے دونوں بھائیوں کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں اس قتل نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔جس انداز میں فائرنگ ہو رہی تھی، دونوں کا بچنا مشکل تھا۔ لیکن اگر اشرف کا ہاتھ نہ بندھا ہوتا تو شاید اسے خود کو بچانے کا موقع مل جاتا۔ تاہم عینی شاہدین کے مطابق جیسے ہی عتیق پر پہلی گولی چلائی گئی، دوسرے حملہ آور نے سیکنڈ کے 100ویں حصے میں اشرف پر گولی چلا دی۔
جس وقت عتیق اور اشرف کو قتل کیا گیا اس وقت ان کے ارد گرد صحافی اپنے کیمرے لے کر موجود تھے۔ میڈیا کے کیمرے میں واضح طور پر دیکھا گیا کہ عتیق اور اشرف کے ہاتھ ایک ہی ہتھکڑی میں بندھے ہوئے تھے۔ 1978 میں سنیل بترا بنام دہلی انتظامیہ اور دیگر کیس میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ریاستوں کو ہتھکڑیوں کا اندھا دھند استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
سپریم کورٹ نے اپنے اس وقت کے فیصلے میں کہا ہے کہ لاپرواہی سے ہتھکڑیاں لگانا، مجرموں کو سرعام زنجیروں میں باندھنا حساسیت کو شرمندہ کرتا ہے اور یہ ہماری ثقافت پر بدنما داغ ہے۔ ہتھکڑیاں لگانے کے لیے عدالت کی اجازت لینی پڑتی ہے اور اگر اجازت ہو تو قیدی کو کس طرح باندھنا ہے اس کا بھی حکم ہے۔
عتیق اور اشرف کے ہاتھ ایک ہی ہتھکڑی میں بندھے ہوئے تھے۔ جب عتیق کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا تو اشرف جو اس کے ساتھ بندھا ہوا تھا کے پاس گولی سے بچنے کا کوئی موقع نہیں تھا۔ جس کے نتیجے میں اشرف کو عتیق کے بعد گولی لگی۔ اشرف کے ہاتھ عتیق کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ کہیں بھی بھاگنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ اس کی بھی موقع پر ہی موت ہو گئی۔
ادھر ڈاکٹر ناہید صدیقی نے اے بی پی نیوز کو بتایا کہ پولیس نے ہمیں عتیق اور اشرف کو لانے کے بارے میں مطلع نہیں کیا تھا۔ صرف دس منٹ پہلے بتایا گیا تھا کہ عتیق اور اشرف کو لایا جا رہا ہے۔ ہماری میڈیکل ٹیم میڈیکل چیک اپ کے لئے وہاں جانے کے لیے تیار تھی جہاں عتیق کو رکھا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں سیکورٹی کا مسئلہ ہوتا ہے ہم اپنی ٹیم وہاں بھیجتے ہیں۔ دو سال پہلے مختار کے معاملے میں بھی یہی کیا تھا۔
0 Comments