Latest News

مسلمانوں سے متعلق موہن بھاگوت کا تازہ بیان پھر سرخیوِں میں۔

ڈاکٹر شاہد زبیری۔
آج راشٹریہ سوئم سیکوک سنگھ کے سر سنچالک کا بیان مسلمانوں کے تعلق سے پھر سرخیوں میں ہے جسمیں انہوں نے کہاہندومسلم الگ نہیں سب کامالک ایک ہے ۔ یہ بیان انہوں نے کل ہفتہ کو چتر کوٹ کے مجھ گاﺅں میں واقع اگریکلچر سائنس سینٹر کے پاس ویرانگنا کے مجسمہ کی نقاب کشائی کرتے ہوئے دیا ۔اپنے ا س بیان میں انہوں نے کھلے دل سے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ویرانگنا جو خاتون مجاہد تھی ان کی فوج میں مسلمانوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
یہ بیان اس وقت سرخیوں میں آیا جب ملک کی کئی ریاستوں میں رام نومی کے تہوار پر بھڑ کے تشدّد کی لہر جاری تھی املاک جلائی جارہی تھی لوگ ایک دوسرے کی جان لینے پر آمادہ تھے شکر ہیکہ یہ منحوس گھڑی نہیں آئی لیکن کسر بھی کوئی نہیں چھوڑی گئی پتھراﺅں اور آگ زنی کا زیادہ تر نشانہ روزہ افطار کررہے غریب پسماندہ مسلمان جن کو لیکر بی جے پی کا پریم چھلکا ہوا ہے وہاں یہ ننگا ناچ ہوا ۔حیرت ہیکہ اس میں ان ریاستوں جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے وہاں بھی اور جہاں اپوزیشن اقتدار پر قابض ہے وہاں بھی یہ ننگا ناچ ہوا ہے ۔حیدراباد میں گاندھی کے قاتل گوڈسے کی تصویر کیساتھ کیسے جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی ۔اس مرتبہ بھی رام نومی کے جلوس میں وہی ہوا جو ہوتا آرہا ہے تلواروں اور آتشی اسلحہ کو لہراتے ہو ہئے مسلم بستیوں سے جلوس نکا لے گئے رام دھن کی بجا ئے تیزآواز میں راون کے سر الاپے گئے اقلیتی فرقہ کو گالیاں بکی گئیں مسلم مخالف نعرے لگائے گئے گھروں دوکانوں کے آگ کے حوالہ کیا گیا رام نومی کے ایک جلوس میں بلڈوزر کو بھی ساتھ رکھا گیا اور بلڈوزر کا خوف بھی دکھایا گیا ،بلڈوزر کا ہوّا اتر پردیش کی سرکار کی دین ہے ۔سوال یہ ہیکہ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ سنگھ پریوار اور وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کا کیا دھرا ہے لیکن کیا اپوزیشن جماعتیں جو یہ الزامات لگا تی ہیں سنگھ پریوار ،وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے خلاف کوئی قانو نی قدم اٹھا نیکا حوصلہ رکھتی ہیں اب تک کی تو جو روایت اپوزیشن جماعتوں کی رہی ہے وہ اب اتنی ڈری ہوئی ہیں کہ ان تنظیموں کا نام لینے سے گھبراتی ہیں انہوں نے یہ مان لیا ہیکہ اگر ان تنظیموں کیخلاف کوئی قانونی کارروائی کیجاتی ہے تو ان کا ہندو ووٹ ان سے کھسک جائیگا اب تو کھل کر بیان بھی نہیں دیا جاتا اور جو خطا وار ہے اس کیخلاف چاہے وہ کوئی مسلمان ہیکیوں نہ ہو کارروائی نہیں کیجاتی دہلی میں گزشتہ سال کیجریوال کی سرکار میں جب رام نومی پر فرقہ وارانہ تشدّدد بھڑ کا تو وزیرِ اعلی کیجریوال گاندھی جی سمادھی پر مون برت رکھ کر بیٹھ گئے ،جبکہ گاندھی جی کی تصویر کو بھی سرکاری دفاتر سے نکال باہر کرچکے ہیں ۔ممتا بنر جی گرجی تو خوب لیکن ابھی تک کوئی کارروائی ان کی طرف سے سامنے نہیں آئی اور کسی ڈی ایم یا پولس کپتان سے جواب طلب نہیں کیا ۔ایسا ہی کچھ تلنگانہ کی سرکار میں ہو رہا ہے ہندوستان کی ثقا فتی پہچان رکھنے والے حیدرا باد میں آخر کیسے کسی یہ یہ ہمّت ہوئی کہ وہ گاندھی جیسے رام بھکت کیخلاف ان کے قاتل گوڈسے کی تصویر جلوس میں نمایا ں طور پر رکھی گئی ۔ حد تو یہ ہیکہ نتیش کمار جو بی جے پی سے ناطہ توڑ چکے ہیں اور بہار میں سرکار چلا رہے ہیں انہوں نے فرقہ وارانہ تشدّد پر پریس کانفرنس کی لیکن ان کے چہرہ کو دیکھ کر صاف لگ رہا تھا کہ رام نومی کے تشدّد پر وہ کوئی سخت ±قدم اٹھانے کے موڈ میں نہیں ہیں
اب بی جے پی ہی نہیں پو زیشن جماعتیں بھی سیاسی روٹیا ں سینک رہی ہیں اور اس پورے کھیل کا فائدہ اٹھانے اور نفع نقسان کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں اور 2024کا انتخاب اور ملک کی کئی ریستوں کے انتخاب کو لیکر ہارجیت اور ضرب تقسیم کا کھیل کھیل رہی ہے ۔وہ اپوزیشن جماعتیں بھی جو مسلمانوں کے ووٹ تو چاہتی ہیں لیکن ان کے ساتھ ہو نے والی زیادتیوں اور ظلم وستم کی کوئی پرواہ نہیں خواہ وہ اکھلیش کمار ہوں یا مایا وتی۔
ان حالات میں اگر موہن بھاگوت جی کا یہ بیان دیکھا جائے تو وہ بظاہر سنگھ پر لگے مسلم دشمنی کے الزامات سے بچنا چا ہتے ہیں ۔اس سے پہلے بھی انہوں نے ملک کے تمام شہریوں کو بشمول مسلمان ہندو مانا تھا اور اس کی تائید بھی ہمارے کچھ بڑے مذہبی لیڈروں نے کی تھی جو ریکارڈ پر ہے ۔بھاگوت جی کبھی کہتے ہیں کہ مسلما نوں کے بغیر ہندوتو کا تصور ادھورا ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ ہندو اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہے اگر اس تازہ بیان کو بھی اسی زمرہ میں رکھا جا ئے تو ہمیں کہنا پڑیگا کہ مسلمانوں کے حوالہ سے وہ صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں عمل ندارد ہے ۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ اگر واقعہ سنگھ پریوار مسلمانوں اور ہندﺅں کو برا بر مانتا ہے تو پھر فرقہ وارانہ تشد د کے شکار مسلما نوں کی حمایت میں وہ کھل کر کیوں سامنے نہیں آتے سب جانتے ہیں کہ وہ دنیا کو باور کرانے کیلئے اس طرح کے بیانات دیتے ہیں ورنہ ان کے پاس اتنا بڑا تنظیمی ڈھانچہ ہے اور سرکار کی باگ دوڑ پر بھی ان کی گرفت ،مضبوط ہے لیکن وہ نہ سرکار کو اس کیلئے پابند کرتے ہیں کہیں بھی فرقہ وارانہ تشد بڑھکنا نہیں چا ہے اور سنگھ کے لاکھوں کارکنوں کو بھی وہ سڑکوں تشڈّد روکنے کیلئے اتار سکتے ہیں لیکن ایسا شاید کبھی ہوگا نہیں مگر پھر بھی ہمارے دانشور سنگھ سے پینگیں بڑھا نے میں کوئی عار نہیں سمجھتے وہ سنگھ کے در پر جبّہ سائی تو کر آئے لیکن مسلمانوں کے حوالہ سے انہوں نے کوئی قابل ذکر کار نامہ انجام نہیں دیا اور موہن بھاگوت اور اندریش کمار و دگر سنگھ کے چوٹی کے لیڈروں کو وہ مسلمانوں کی ہمدردی کیلئے عملی طور پر آمادہ نہیں کر سکے خط وکتابت بھی دانشوروں کی طرف سے کی گئی جو بے نتیجہ ثابت ہوئی ۔
موہن بھاگوت جی کے جس بیان کا زکر کیا جارہا ہے اسی بیان میں وہ یہ تو کہ رہے ہیں کہ ہندو مسلم اگر ایک رہیں گے تو ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا لیکن اگلے ہی سانس میں انہوں نے کہا گھر کے بھیدیوں سے بھی ہو شیار رہنے کی تاکید کی معلوم نہیں ان کا اشارہ کون سے بھیدیوں کیطرف ہے ۔انہوں نے اپنے اس بیان میںایک بات کیطرف اور اشارہ کیا کہ کہ ہمارے الگ الگ طبقات کو کام کے لحاظ سے ضرور بانٹا گیا ہے لیکن کوئی الگ نہیں ہے ۔ایسا لگتا ہیکہ سر سنگھ سنچالک اس پر عمل کرتے ہیں کہ بات وہ کہئے جس کے سو پہلو ہوں کوئی پہلو تو رہے بات بدلنے کیلئے ۔آخر وہ اس طرح کے خوش کن بیان دیکر کسے خوش کرنا چاہتے ہیں کس کی ناراضگی کا ان کو ڈر ہے مسلمانوں کی ناراضگی کا ڈر تو اب ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کے دل سے بھی نکل گیا ہے وہ ستم رسیدہ مسلمانوں کی اشک شوئی سے بھی اب ڈرتی ہیں ایسے میں مسلمانوں کو ہر سطح پر بے یارو مدگار چھوڑ دیا گیاہے کہیں سے کوئی آواز مسلمانوں کے حق میں نہیں اٹھتی مسلم تنظیمیں بھی مصلحت کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں ۔اب کوئی آزاد نہیں کوئی حفظ ا لرحمن سیو ہاروی نہیں کوئی ڈاکٹر سیّد محمود اور کوئی ڈاکٹر فریدی نہیں بچا ہے مسلم حلقوں میں یا تو بے حسی ہے یا مایوسی دیکھئے کون کشتی پار لگائے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر