ہرسال یکم مئی کو دنیا بھر میں لیبرڈے یعنی یوم مزدور منایا جاتا ہے۔ لوگوں کو اس روز مزدوروں کےحقوق کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے۔ محض رسمی طور پر مزدوروں کےحقوق کا ڈھنڈورا پیٹ کر اگلے روز سے ہی مزدوروں کا استحصال شروع کر دیا جاتا ہےحیرت ہے کہ مزدوروں کےحقوق کے علمبردار لوگ وادارے خود اپنے ماتحتوں ملازموں،مزدوروں اور کارکنوں کا استحصال کرتے ہیں۔اسلام محنت اور محنت کشی کو سراہتے ہوئے محنت کشوں اور مزدوروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہےمحنت کا مقام اور محنت کرنے کی ترغیب کے حوالے سے ارشادات ربانی ملاحظہ ہو.اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا،جس کی اس نے کوشش کی ہو۔ ( سورۃ النجم) ایک مقام پر فرمایاگیا:’اور دنیا سے اپنا حصہ لینا نہ بھول (سورۃ القصص) نیز فرمایا گیا! ’’اور پھر جب نماز (جمعہ) ختم ہوجائے تو زمین میں پھیل جائو اور پھر ﷲ کا فضل یعنی رزق تلاش کرنے لگو (سورۃ الجمعہ) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا۔‘‘(سورۃ النساء) ’’پس تم اللہ کی بارگاہ سے رزق طلب کیا کرو اور اسی کی عبادت کیا کرو اور اسی کا شکر بجایا لایا کرو‘‘۔(سورۃ العنکبوت)مغربی ممالک کی دیکھا دیکھی تمام اسلامی ممالک یکم مئی یوم مزدور یا یوم محنت کے طور پر مناتے ہیں۔اس دن پوری دنیا میں مزدوروں کے حقوق کے لیے ریلیاں جلسے اور جلوس منعقد ہوتے ہیں۔اور ان کے حقوق کے تحفظ کا اعادہ کیا جاتا ہے۔یہ سارے عمل اپنی اپنی جگہ پر قابل تحسین ہیں کہ مزدوروں کے حقوق کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کی جائے۔لیکن ہمارے پاک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس طرح ہر شعبہ زندگی کے لیے رہنما اصول وضع فرمادئیے اسی طرح مزدوروں کے لئے بھی واضح اصول متعین فرما دیے۔اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اسلام میں کھانے پینے کے آداب سے لے کر حسن معاشرت تک ہر شعبے میں زریں اصول وضع کر دیے گئے ہیں جن پر عمل کرکے ہم ایک متوازن اور حسین معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں ہیں اشتراکی دنیا میں مزدوروں کو دوسرے درجے کا شہری خیال کیا جاتا ہے اور ان کے حقوق کےاستحصال کو برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔ایسے استحصالی گروہ کی مذمت میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے مزدور سے مکمل کام لیا لیکن اس کو مزدوری ادا نہ کی اس کے خلاف قیامت والے دن میں خود مدعی ہوں گا۔۔(بخاری)اسلام نے مزوروں کے سماجی مرتبے کو بلند کیا۔اسلام میں ایسے اشخاص کو پسندیدگی اور محبت کی نگاہ سے دیکھا گیا جو محنت کرکے اپنی روزی کماتے ہیں اور ان لوگوں کی شریک مذمت بیان کی جو بغیر محنت کے رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔سماجی مرتبہ میں اضافہ کی نشانی اس سے بہتر اور کیا ہوسکتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ محنت کش اللہ کا دوست ہے۔اللہ کے دوست کے مقام و مرتبے کو واضح کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ مزدور کو مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو (ابن ماجہ)ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا کہ یہ تمہارے بھائی ہیں ان کو اللہ تعالی نے تمہارے ماتحت بنا دیا ہے۔جو خود کھاؤ وہی کھلاؤ جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ۔اور ان سے ایسا کام نہ لو کہ جس سے یہ بالکل نڈھال ہی ہو جائیں اور اگر ان کی استطاعت سے زیادہ کام ان کے ذمے لگا دو تو پھر ان کی خود معاونت کرو۔محنت کی عظمت بیان کرتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں جو آدمی اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے(مشکوۃ)حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے کام کرنے کا اجر بیان فرمایا اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے کے متعدد فضائل بھی بیان فرمائیے۔قرآن کریم میں بھی حضرت داؤد علیہ السلام کے اپنے ہاتھوں سے روزی کمانے کا ذکر ہےاسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ہاتھوں سے کام کیے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسی کمائیں سب سے زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ نے فرمایا اپنی محنت کی کمائی۔سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اپنی افتاد طبع کے مطابق مزدوری کے لیے مختلف پیشوں کا انتخاب کرتے تھے اور وہ انہیں پیشہ کے حوالے سے معروف بھی ہوتے۔بیشتر انبیاء علیہم السلام اپنے ہاتھ کے ہنر سے کسب معاش فرماتے تھے۔حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت زکریاعلیہ السلام نجار تھے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دیگر کئی انبیاء نے بکریاں چرائی تھیں۔حضرت داودعلیہ السلام لوہار تھے۔حضرت ایوب علیہ السلام کپڑے کے کاروباری تھے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کے ساتھ سوت کاتا کرتے تھے۔اور رحمت اللعالمین رسول اکرمﷺ مختلف اشیاء کا کاروبار فرماتے تھے
حضرت خباب رضی اللہ تعالی عنہ لوہار کا کام کرتے تھے۔فقیہ امت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بکریاں چرایا کرتے حضرت زبیر بن عوام درزی کا کام کرتے۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ تیر بنانے کا کام کرتے۔حضرت بلال بن رباح رضی اللہ تعالی عنہ گھریلو ملازم تھے۔کتب سیرت میں ازواج مطہرات اور دیگر صحابیات کے ان کاموں کا تفصیل سے ذکر ہے جو وہ خود اپنے ہاتھوں سے سرانجام دیا کرتیں۔جیسے کہ ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا خود تجارت فرماتیں اور مکہ مکرمہ کے متمول تاجروں میں ان کا شمار ہوتا،جبکہ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کھالوں کو رنگنے کا کام کرتیں حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہا جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتی۔کھانا پکا کر فروخت کرنے کا بھی کام کرتیں، کچھ زراعت کرتیں اور کچھ تجارت کرتیں۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک روایت صحیح مسلم میں موجود ہے جس میں انہوں نے ام المومنین حضرت سیدہ زینب بنت جحش کے متعلق فرمایا کہ وہ اپنی محنت سے کماتیں اور اللہ کی راہ میں صدقہ کردیتیں۔کتب احادیث میں اس طرح کی کثیر روایات موجود ہیں جن میں ایک طرف تو مزدور کی عظمت کوبیان کیا گیا دوسری طرف اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کی فضیلت بیان کی گئی۔رسول پاک ﷺ سے منقول کئی احادیث مبارکہ میں اس کمائی کی سب سے زیادہ تعریف مروی ہے جسے انسان اپنے ہاتھ کے ہنر اور محنت ومزدوری سے حاصل کرتا ہے۔
اسلام میں جہاں محنت کی عظمت اورکسبِ حلال کی اہمیت بیان کی گئی ہے،وہاں حرام مال اور ناجائز آمدنی سے حاصل ہونے والے رزق اور مال و جائیداد کو انسان کی تباہی اس کی نیکیوں کی بربادی اور اس کے تباہ کن اثرات کو بھی پوری وضاحت سے بیان کیا گیا ہے،چناں چہ کسب ِ حلال کو ایک عظیم نیکی،باعثِ اجرو ثواب عمل قرار دیا گیااور دوسری جانب ناجائز اور حرام مال کو وبال اور گناہ کا بنیادی سبب قرار دیا گیا۔ جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ بندۂ مومن کی زندگی میں کسبِ حلال کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔بہرحال بڑے افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ مزدوروں کے حقوق کی بات کرنا فیشن کے طور پر تو بڑا معروف ہے لیکن حقیقی طور پر مزدوروں کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات بہت کم ہیں۔ان کی پینشن کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔حکومتی اداروں کو اس حوالے سے توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ مزدوروں کے حقوق کے لیئے صرف ایک دن ہی متعین نہ کریں بلکہ پورا سال اور سال کے 365 دن مزدوروں کےحقوق کا خیال رکھا جائے۔یہاں میں اس امر کا اظہار بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جو دوست مزدوری کا کام کرتے ہیں ان کو بھی چاہئے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں جس کام کی اجرت لیں اس کے لیے مکمل کام کریں کام کے دوران آجر کا نقصان کرنے کے بجائے اس کے کام کو مکمل کرنے کی کوشش کریں معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ مزدوروں کے مختلف رویوں سے بھی شاکی رہتا ہے اور ان کے کام کرنے کے انداز اور کام کرنے کے مہارت پر بھی کئی سوالیہ نشان موجود ہوتے ہیں ان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بغیر محنت کے روزی حاصل کرنا اسلام میں طور پر بھی پسندیدہ نہیں سمجھا گیا اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ آجر اور اجیر کو ایک دوسرے کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین۔
ڈاکٹر تمیم احمد قاسمی چنئی ٹمل ناڈو۔ چیرمین۔ آل انڈیا تنظیم فروغ اردو 9444192513
شعبہ نشرواشاعت۔انجمن قاسمیہ پیری میٹ چنئی ٹمل ناڈو انڈیا۔
anjumanqasimiyah@gmail.com
0 Comments