Latest News

بی جے پی کے تئیں نرم ہورہا مسلم سماج کارویہ؟ حالیہ بلدیہ الیکشن میں متعدد مسلم اکثریتی سیٹوں کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتی ہے دلچسپی۔

دیوبند: سمیر چودھری۔
اس میں دو رائے نہیں کہ نگر پالیکا انتخاب کی رائے شماری میں کچھ حیرت زدہ کرنے والے نتائج سامنے آئے ہیں ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک بی جے پی سے دوری بنائے رکھنے والے مسلم طبقہ اب بی جے پی کو قبول کررہا ہے اور اس کا اس جماعت پر یقین ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ضلع سہارنپور کے نکوڑ اسمبلی حلقہ میں چلکانہ نگر پنچایت مسلم اکثریتی علاقہ ہے ، یہاں پر 15ہزار 12ووٹوں میں مسلم طبقے کی حصہ داری تقریباً 10ہزار ہے، باقی پانچ ہزار میں ہندو اور دلت طبقہ ہے۔ اس نگر پنچایت میں بی جے پی کے امیدوار کا چیئرمین عہدے کا انتخاب جیتنا کسی تعجب سے کم نہیں لگ رہا ہے۔ وہیں بی جے پی کے لیڈران کی بھی خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہے، یہاں بی جے پی کی امیدوار پھول بانو انصاری نے 6346 ووٹ حاصل کرکے اپنے مدمقابل بہوجن سماج پارٹی کے اکبرقریشی کو 1236ووٹوں سے شکست دی جو کہ اپنے آپ میں ایک بڑے تعجب کی بات ہے، گزشتہ انتخاب میں بی جے پی کے امیدوار کو صرف 738 ووٹ ہی حاصل ہوئے تھے ، اس کے ساتھ ہی 13ممبران والی اس نگر پنچایت میں 9ممبر بی جے پی کے جیتے ہیں اور یہ سیٹ اس مرتبہ پسماندہ طبقے کے لئے محفوظ تھی۔ اسی طرح دیوبند نگر پالیکا میں بھی پہلی مرتبہ کمل کھلا ہے ، یہاں پر کل 82050 ووٹروں میں تقریباً 52ہزار مسلم ووٹر ہیں ، یہاں سے بی جے پی امیدوار وپن گرگ نے 22643 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی ہے، ان کے مدمقابل سماج وادی پارٹی کی امیدوار ظہیر فاطمہ کو 17957 ووٹ حاصل ہوئے ، جب کہ گزشتہ نگر پالیکا انتخاب میں بی جے پی صرف 12000ووٹ ہی حاصل کرسکی تھی۔ اگر بات کریں سہارنپور نگر نگم کی تو یہاں پر بھی مسلم طبقے نے اس مرتبہ بی جے پی کو ووٹ دینے کی شروعات کی ہے، رائے شماری کے اعداد وشمار کے مطابق تقریباً 8000 ووٹ بی جے پی کے امیدوار کو حاصل ہوئے ہیں ۔ واضح ہو کہ بی جے پی کے میئر امیدوار کی کامیابی 8000 کے قریب ووٹوں سے ہوئی ہے ، ایسے میں ان مسلم ووٹروں کا کردار اہم ہوجاتا ہے ۔ دھیان دینے کالائق بات یہ ہے کہ اس نگر پالیکا انتخاب میں ووٹنگ فیصد بھی بہت کم رہی ہے ۔ مسلم ووٹروں کا یہ جھکاﺅ بی جے پی امیدوار ڈاکٹر اجے سنگھ کی اپنی شبیہ کو بھی جاتا ہے، اپنے ڈاکٹری پیشہ میں انہو ںنے مذہب سے اوپر اٹھ کر تمام لوگوں کا کام کیا ہے ، اپنے اسپتال میں انہوں نے غریبوں کے علاج میں ذاتی طو رپر لوگوں کی بہت عرصہ سے مدد کی ہے ۔ بی جے پی کی جانب بڑھا یہ رجحان پارلیمانی انتخاب میں بڑا گل کھلاسکتا ہے ۔ دوسری جانب مظفرنگر کے نگرپالیکا انتخاب میں مسلم ووٹ بینک نے ایک ایسی بنیاد رکھ دی ہے جو نئے سیاسی حالات کو جنم دے سکتی ہے ۔ مسلم ووٹ بینک کو اپنا حق ماننے والی سیاسی پارٹیوں کے لئے یہ کرارا طمانچہ ہونے کے ساتھ ساتھ سبق بھی ہے کہ ایک بڑے ووٹ بینک کو نظر انداز کرنا سیاسی نقصان کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ نگر پالیکا مظفرنگر سیٹ پر جس طرح سے مسلم ووٹوں کی تقسیم ہوئی اس نے یہ طے کردیا ہے کہ بی جے پی کا خوف دکھاکر اب مسلمانوں کا ووٹ حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے، وہاں پر بھی بی جے پی کے حق میں ہوئی ووٹنگ سے بھی سیاسی حالات آنے والے پارلیمانی انتخاب میں بگڑتے نظر آرہے ہیں۔ واضح ہو کہ اترپردیش میں مسلم ووٹروں کی تعداد بہت زیاد ہے اور یہ ووٹر کسی بھی سیاسی پارٹی کا وجود قائم بھی کرسکتے ہیں اور ختم بھی کرسکتے ہیں۔ مسلم ووٹروں کی اسی طاقت کو دیکھتے ہوئے سماج وادی پارٹی کے بانی ملائم سنگھ یادو نے مسلمانوں کی سیاست شروع کی تھی اور اترپردیش میںایک بڑی پارٹی کے طو رپر سماج وادی پارٹی کو نہ صرف قائم کیا تھا بلکہ ریاست میں کئی مرتبہ سماج وادی پارٹی کی حکومت بھی قائم کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ مسلم ووٹروں نے نہ صرف بی جے پی کو ووٹ دیا بلکہ مسلمانوں کے رہنما مانے جانے والے اسدالدین اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم کے امیدوار کو بھی زبردست ووٹ دیا ہے۔ اس کے علاوہ مسلم ووٹروں کی تقسیم کانگریس اور بہوجن سماج پارٹی کے حق میں بھی ہوئی ، مطلب جس کو جو امیدوار اچھا لگا بغیر کسی خوف کے اس کے حق میں ووٹ کیا گیا، نتیجہ یہ ہوا کہ غلط فہمی پیدا کئے ہوئے گٹھ بندھن امیدوار کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس انتخاب میں مسلمانوں کے ذریعہ بی جے پی کے اس خوف کو ہی دور کردیا گیا اور نہ صرف بی جے پی کے حق میں ووٹنگ کی بلکہ اے آئی ایم آئی ایم کے امیدوار کو بھی بڑی تعداد میں ووٹ دیا۔ بی جے پی کے خوف سے سماج وادی پارٹی ، بہوجن سماج پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کو ووٹ کرنے والے مسلم ووٹروں کا ڈر اس انتخاب میں دور ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آنے والے وقت میں اے آئی ایم آئی ایم یہاں پر مضبوط ہوسکتی ہے ، کیو ںکہ میرٹھ کے میئر انتخاب میں اے آئی ایم آئی ایم نے جس طرح کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرا مقام حاصل کیا ہے اور سماج وادی پارٹی کو تیسرے نمبر پر بھیج دیا ہے اس سے مسلمانوں کے درمیان ایک نیا یقین پیدا ہوا ہے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر