غازی آباد: غازی آباد میں ۳۶ سالہ دلشاد خان کی مشتبہ حالت میں پولس کسٹڈی میں ۱۲ جون کو موت ہوگئی، واقعہ کے فوراً بعد پولس نے بیان دیا کہ جب دلشاد کو پوچھ تاچھ کےلیے وجے نگر تھانہ لے جایا جارہا تھا تو کار میں کنٹینر (ٹرک) نے ٹکر ماردی اور اس کی موت ہوگئی لیکن اہل خانہ کا الزام ہے کہ پولس کسٹڈی میں ان کے بیٹے کومارا پیٹا گیا جس کی وجہ سے اس کی موت ہوئی ہے۔ غازی آباد پولس نے ابھے کھنڈ چوکی انچارج نیرج راٹھی سمیت وجے نگر تھانہ کے نامعلوم پولس اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا ہے۔ دلشاد اندرا پورم تھانہ علاقہ کے مکن پور گائوں کا رہائشی تھا، وہ کپڑوں کی دھلائی اور ڈرائی کلین کا کام کرتا تھا، پولس کے مطابق وجے نگر تھانے میں اس کے خلاف خاتون سے متعلق جرم کی شکایت ملی تھی، پیر کی شام مکن پور چوکی انچارج بابی نے دلشاد کو فون کیا اور یہ کہہ کر بلایا کہ میرے کچھ کپڑوں کی دھلائی ہونی ہے، دلشاد جب چوکی پر پہنچا تو اسے حراست میں لے لیا گیا یہاں سے اسے سفید رنگ کی ایک کار میں بٹھا کر پولس والے وجے نگر تھانہ لے کر چلے گئے۔ اے سی پی سلونی اگروال کا کہنا ہے کہ جس گاڑی سے دلشاد کو پوچھ تاچھ کے لیے لایا جارہا تھا اس گاڑی میں آئیشر کنٹینر نے ٹکر ماردی اس میں پیچھے کھڑکی کنارے بیٹھا دلشاد زخمی ہوگیا، فوراً اسے یشودا اسپتال لے جایاگیا جہاں اسے مردہ قرار دیاگیا۔ پولس نے کنٹینر کے ڈرائیور حکم سنگھ او رکلینر پروین کمار کو حراست میں لے لیا ہے اور کارروائی کررہی ہے۔ سوشل میڈیا پر خبر وائرل ہونے کے بعد صحافی اشرف حسین نے لکھا کہ ’’یوپی کے غازی آباد میں دلشاد نامی نوجوان کوپولس پوچھ تاچھ کےلیے تھانہ لے کرنکلی، پھر اچانک دلشاد کی موت ہوگئی، اب پولس کہہ رہی ہے کہ راستے میں پولس کی گاڑی کو کنٹینر سے حادثہ ہوگیا او ردلشاد کی موت ہوگئی، اب سوال یہ ہے کہ پولس کی گاڑی میں دلشاد اکیلا تھا کیا؟ انہوں نے لکھا کہ کل پولس نے اسے ایک کیس میں کسٹڈی میں لیا تھا پھر اچانک اس کے اہل خانہ کو پتہ چلا کہ اس کی لاش پوسٹ مارٹم ہائوس میں ہے، پولس یہ کہہ رہی ہے کہہ دلشاد کو کار سے تھانے لے جایاجارہا تھا اسی دوران دلشاد نے تھوکنے کےلیے گاڑی سے اپنا سر باہر نکالا تھا اور سائڈ سے کٹینر پر اس کا سر ٹکراگیا اور موت ہوگئی‘‘۔ دینک جاگرن کی رپورٹ کے مطابق ’’دلشاد کے بھائی نوشاد نے بتایاکہ ان کا کپڑوں کی ڈرائی کلینگ کا کام ہے، اور طویل وقت سے غازی آباد کے کئی پولس والے اپنی وردی ان سے دھلواتے ہیں، پیر کو ظہر کی نماز کے بعد ابھے کھنڈ چوکی سے دو سپاہی آئے اور چوکی سے فون کرکے کہاکہ وردی لے کر چوکی آجائو وہ وردی پر استری کرکے چوکی پر لے گئے، کافی دیر تک بھائی نہیں لوٹے تو ہم چوکی گئے، پولس اہلکار نے کہاکہ وہ دہلی چلا گیا ہے اور پھر بتایا کہ اسے وجے نگر پولس لے گئی ہے۔ دلشاد کی والدہ مینا کا کہنا ہے کہ وجے نگر تھانے سے اندرا پورم تھانہ بھیج دیاگیا، اندرا پورم سے پھر وجے نگر آئے، یہاں بھی پولس کچھ بتانے کو تیار نہیں، صرف اتنا کہا کہ دلشا دکے ساتھ حادثہ ہوا ہے، پہلے کہاکہ سنگین چوٹ لگنے کی وجہ سے آئی سی یو میں داخل کیا ہے لیکن اسپتال کا نام تک نہیں بتایا، شام کو کہا کہ اس کی موت ہوگئی، جس کے بعد ہم پوسٹ مارٹم کی جگہ پہنچے یہاں بھی کچھ جانکاری نہیں ملی، تو بڑی تعداد میں اکٹھے ہوکر لوگ وجے نگر تھانے پہنچے اور ہنگامہ کیا۔ بتادیں کہ دلشاد کے پسماندگان میں بیوہ، تین بچے دو بھائی اور والدین ہیں، والدہ مینا نے مزید کہاکہ ہمیں صرف اتنا بتادوں کہ بیٹے کے ساتھ کیا ہوا ہے، بھائی کا الزام ہے کہ پولس کچھ نہیں کیا تو اسپتال کا نام تک کیوں نہیں بتایا، ابھی تک جائے حادثہ بھی نہیں بتائی گئی ہے، الزام ہے کہ جس ٹرک سے ٹکر لگنا بتایاجارہا ہے اس پر خون کے ایک قطرے تک کا نشان نہیں ہے، سفید رنگ کی پولس کار کا صرف ایک دروازہ متاثر ہے۔ اگر ٹرک کی چپیٹ میں دروازہ آتا ہے تو کار سے الگ ہوگیا ہوتا، نوشاد کے مطابق ٹرک ڈرائیور اور کلینر نے ٹکر ہونے کی بات سے انکار کیا ہے، اس کے علاوہ ہم سبھی کو بار بار دوڑایاگیا، حادثے کی جانکاری اور اسپتال کا نام کیوں نہیں بتایاگیا، دلشاد کو سرکاری اسپتال کے بجائے یشودا اسپتال لے جانے کے پیچھے کیا معاملے کو چھپانے کی منشا تھی؟ ان سبھی سوالو ںپر پولس کی جانب سے کوئی جواب نہیں ہے، افسران ابتدا سے ہی حادثے کی دہائی دیتے ہوئے سوالوں سے بچتے نظر آئے‘‘۔
0 Comments