سنگھ اور بی جے پی کی پٹارے میں تیسرا اور آخری کھیل جودکھانا باقی رہ گیا ہے وہ یکساں سول کوڈ کا ہے اور اس آخری کھیل میں عوام کی آنکھوں پر اختلافات ،تنازعات کی اور نفرت کی چادر ڈال کر نظر بندی کے سہارے بیوقوف بنا نا اور جن صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات باقی رہ گئے ہیں انمیں اور اس سے زیادہ 2024کے پارلیمانی انتخابات میں پولرائزیشن کا کھیل کھیلنا ہے۔
نریندر مودی نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے ان9سالوں میں اس کے پٹارے سے مذہبی منافرت ،اختلافات اور تنازعات کے کھیل کے علاوہ کچھ اور سامنے نہیں آیا ملک آج معاشی لحاظ سے جہاں پہنچ گیا ہے ،بیروزگاری ،مہنگائی اور چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز موی سرکار کا نما یاں کارنامہ ہے چشمِ بینا اسے آسانی سے دیکھ سکتی ہے ۔ مودی سرکار نے عوام کے ان بنیادی ایشوز سے توجّہ ہٹانے کیلئے اس کے پٹارے کے ان تین کھیلوں میں 370 , رام مندر اور تیسرا کھیل یکساں سول کوڈ ہے ۔کشمیر سے 370کا خاتمہ تو مودی سرکار کر چکی ہے رام مندر کی بنیاد پر اس نے اقتدار حاصل کیا جسکی بنیاد وہ پہلے ہی مضبوط کرچکی تھی ۔ اب اس کے پٹا رے میں یکساں سول کوڈ کا آخری کھیل باقی ہے ۔خاص بات یہ ہیکہ اس سارے کھیل میں سنگھ اور بی جے پی نے جہاں رام مندر کے افتتاح کیلئے یکم جنوری 2024کی تاریخ طے کی ہے اس نے یکساں سول کوڈ کے ایشو کو اچھا لنے کیلئے بھی یہی ٹائمنگ رکھی ہے اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بچا نہیں ہے اور اس کے پسِ پردہ سنگھ اور بی جے پی نے پولرائزیشن کا کھیل شروع کردیا ہے یہ دونوںکی بقاءکا بھی سوال ہے ۔
مودی سرکار نے 2016میں اس وقت بھی بھی یکساں سول کوڈ کا راگ چھیڑا تھا جب 2017میں یو پی اسمبلی کے انتخابات سر پر تھے اور دوسری مرتبہ 2018 میں ، 2019میں پارلیمانی انتخابات ہو نے والے تھے۔حالانکہ مودی سرکار کے دور ہی میںلاءکمیشن نے اپنے سروے رپورٹ کی بنیادپر یہ کہہ کر اپنے ہاتھ کھڑے کردئے تھے کہ ہندوستان جیسے تہذیبی ،رواجی اور مذہبی اختلافات رکھنے والے متنوع اور کثیرجہتی ملک میں یکساں کوڈ کے نفاذ کیلئے حالات ابھی سازگار نہیں ہیں لیکن باوجود اس کے پہلے گجرات کی بی جے پی سرکار نے یہ شوشہ چھوڑا اور پھر بی جے پی کی اترا کھنڈ کی موجودہ پشکر دھامی کی سرکار نے اس ایشو کو اچھا لا اس نے باقاعدہ اس کیلئے جسٹس رنجنا ڈیسائی کی سربراہی میں یکساں سول کوڈ کا ابتدائی خاکہ ( بلو پرنٹ ) تیّا کرنے کیلئے ایک خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دے ڈالی۔سنگھ نے بی جے پی کو ایک لمحہ کیلئے اجازت نہیں دی کہ وہ اپنے اس کور ایجنڈہ سے ادھر ادھر ہو ۔
یہاں بات دھیان رہیکہ آزادی سے پہلے انگریز حکمرانوں نے بھی یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی ہمّت نہیں دکھائی تھی جبکہ کرمنل لاءانڈین پینل کوڈ ( IPC) کا نفاذ انگریز حکمرانوں نے آسانی سے کردیا تھا اس لئے کہ 1857کی پہلی جنگِ آزادی جس کو انگریزوں نے بغاوت کا نام دیا تھا اس نے انگریز حکمرانوں پر یہ حقیقت واضح کردی تھی کہ ہندوستان کے لوگ اپنے مذہبی جذبات کے بارے میں بہت حسّاس ہیں اس لئے اس نے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی جرائت نہیں دکھائی اس کو معلوم تھا کہ اس میںہندوستان کے تمام مختلف مذاہب اور فرقوں کے اپنے اپنے پرسنل لاز ہیںخاص طور پر شادی بیاہ نکاح طلاق اوروراثت کے بارے وہ اپنے ان عائلی قوانین پر ہی عمل کرتے ہیں اس لئے اس نے مذہبی معاملات میں دخل اندازی سے خود کو باز رکھا۔1937میں انگریزوں نے مسلمانوں کے اصرار پر مسلم پرسنل لاز (عائلی قوانین ) کی تدوین بھی مسلم ماہرِ قوانین اور مسلم علماءکے ہاتھوں کرائی تھی اس پہلے راجہ رام موہن رائے جیسے ہندو مصلح کی تحریک پرمرد کے فوت ہو جا نے کے بعد ہندو عورت کے چتاءکیساتھ جل جانے یعنی ستی ہو جانے کے رواج پر پابندی کا قانون 1829میں بنا یاتھا۔ یہ صحیح ہیکہ ستی کے رواج پر پابندی تو لگی لیکن یہ رواج مکمل طور پر ختم نہیں ہوپایا راجھستان جیسے صوبہ میں آزاد ی کے بعد بھی ہندو عورتوں کے ستی ہو جا نیکی اکّا دکّا خبریں آج بھی ملتی رہتی ہیں۔انگریزوں کے ذریعہ مسلم پرسنل لازءکی تدوین اور ستی کے رواج کا خا تمہ انگریزوں نے خود ان مذہبی فرقوں کی ایماءاور اصرار پر کیا جو ایسا چاہتے تھے انگریزوں نے اس کو جبراً نہیں تھوپا ۔ ایسا بھی نہیں کہ 1937سے پہلے ہندوستانی مسلمان مسلم عائلی قوانین سے پہلے کسی اور قانون پر عمل کرتے تھے انگر یزی عہد میں ان قوانین کی تدین ( Codefication) کی گئی تھی ۔
ملک کی آزادی کے بعد جب ہندو کوڈ بل پاس کئے جا نیکا معاملہ سامنے آیا تو اسپر نہ صرف ہندو مہا سبھا و آریہ سماج نے مخالفت کی بلکہ اس وقت کے صدرِ جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد بھی اس کیخلاف تھے جیسے تیسے ان کو راضی کیا گیا۔یہ کوڈ بل بھی الگ الگ حصّوں میں مختلف اوقات میں پاس کیا گیا ۔جہاں تک آئین کے رہنمااصولوں کی دفعہ 44کی بات ہے تو اس بابت ماہرِ قوا نین کی مانیں تو اس کو دفعہ 37 سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا دفعہ 37سے دفعہ 44تک کو اگر دیکھا جا ئے تو دفعہ 44یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی سفارش تو کرتی ہے لیکن قانو ناًً جبریہ نفاذ کی اجازت نہیں دیتی اسی لئے ہماری عدالتیںسپریم کورٹ تک اس کے نفاذ کی سفارش تو کرتے رہے ہیں لیکن عدالتوں نے قانونی طورپر اس کے نفاذ کیلئے پابند نہیں کیاہے ۔ہر چند کہ یہ متنازعہ دفعہ اسٹیٹ کو یہ حق دیتی ہےکہ وہ اس کے نفاذ کو اپنا ہدف بنا سکتی ہے لیکن اس کے نفاذ کو لازمی قرار نہیں دیتی ۔ بعض حلقے گوا ریاست کی مثال شدّو مد کیساتھ پیش کرتے ہیں لیکن وہ یہ بات نہیں بتا تے کہ گوا میں نہ صرف مسلمانوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے بلکہ بعض معاملات میں ہندو ﺅں کو بھی مستثنیٰ مانا گیا ہے ماہرِ قوانین کے مطابق یہ استثناءہندو مردوں کوبعض مجبوریوں کی بنا ءپر دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے جوہندو مذہب میں نہیں ہے چنا نچہ گوا کو چھوڑ کر ملک بھر میں مختلف مذاہب اور فرقے اپنے پنے پرسنل لاءکے مطابق شادی ، بیاہ ،نکاح ،طلاق ،وراثت اور جا ئداد کے مسائل طے کرتے ہیں۔
اس مختصر مضمون میں اخبار میں جگہ کی قلّت اور الفاظ کی پابندی اس کی تفصیل کی اجا زت ہمیں نہیں دیتی لیکن اس کی ایک دو مثالیں تو سامنے کی ہیں جنوبی ہندوستان کے بعض فرقوں میں ہندو لڑکی کی شادی حقیقی ماموں کیساتھ سب سے افضل مانی جا تی ہے بعض پہاڑی علاقوں میں ہندﺅ وں کے بعض طبقوں میں زمین کی تقسیم کو روکنے کیلئے ایک عورت کے ایک سے زائد خاوند رکھنے کا رواج ہے سوشولوجی کی نصابی کتابوں میں بھی اس کو پڑھا یا جا تا ہے ایک طالبِ علم کی حیثیت سے بی اے کے سوشولوجی کے نصاب میں راقم نے خود یہ پڑھا ہے علاوہ ازیں ہندو کوڈ بل کے تحت مشترکہ کنبوں کو انکم ٹیکس سے چھوٹ ملی ہو ئی ہے جو معاشی طور پر ایک بڑ ی راحت ہے ۔ اس روشنی میں اگر دیکھا جا ئے تو سنگھ اور بی جے پی کی مودی سرکار کو ملک اقلیتوں مسلم جین ،سکھ، عیسائی اور بودھ وغیرہ کو یکساں سول کوڈ کا پابند کر نے سے پہلے ہندو اکثریت کیلئے یکساں سول کوڈ کو نافذکے نفاذ کا تجربہ کر لینا چا ہئے ۔
یہاں یہ بات دھیان رہیکہ لاءکمیشن کی آڑ لیکر مودی سرکار اس مسئلہ پر عوام کو گمراہ کر نا چاہتی اور لاءکمیشن آزاد نہیں ہے بلکہ وزارتِ قانون کے تحت کام کرتا ہے مودی سرکارمیں ہی اس سے پہلے لاءکمیشن یکساں سول کوڈ کے نفاذ میں آنے والی دشواریوں اور خود کے سروے کی بنیاد پر پہلے اس کے نفاذ سے پلّہ جھاڑ چکا ہے لیکن اب مودی سرکار نے پھر اس ایشو کو انتخابی پولرائزیشن کیلئے ہوا دی ہے ۔ آزاد ہندوستان میں اس مسئلہ نے اس وقت سب سے زیادہ شدّت اس وقت اختیا ر کی تھی جب 1985شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ نے شاہ بانو کے حق میں فیصلہ سنا یا تھا جس کیخلاف مسلمانوں کا سیلاب سڑکوں پر اتر آیا تھا بعد میںجس کی کوکھ سے بہت سے ہمارے سنگین مسائل نے جنم لیا ہے ۔اس تناظر میں مولا نا ارشد مدنی کی یہ بات صد فیصد صحیح ہیکہ یہ معاملہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام ہندوستا نیوں کا ہے اورہم سڑکوں پر احتجاج نہیں کریں گے اورقانون کے دائرے میں تمام ممکنہ اقدامات کریں گے مذہبی معاملات میں سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے یہ بات مسلم دانشوروں کے وفد سے کہی ہے۔
0 Comments