Latest News

اترکاشی میں ۱۵؍ جون کو مسلمانوں کے خلاف مہا پنچایت، جے شری رام کے نعروں کے ساتھ نشان زد کرکے دکانوں ومکان پر حملے جاری، لوگوں میں خوف وہراس، اویسی، عمران پرتاپ گڑھی کا دھامی سرکار پر حملہ، ۱۸؍ جون کو مسلمانوں کا بھی مہاپنچایت کا اعلان۔

دہرہ دون: اتراکھنڈ کے اترکاشی میں پرولا کے حالات مزید ابتر ہوتے جارہے ہیں، لوجہاد کو لے کر ہندو تو وادی تنظیمیں مسلسل اشتعال انگیزی کررہی ہے اور مسلمانوں کو ۱۵ جون سے قبل اپنی تجارت ورہائش کو یہاں سے ہٹانے کی دھمکی دے رہی ہے۔ جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں برسوں سے آباد میں مسلمان ہجرت پر مجبور ہیں۔ حالانکہ ہجرت کی بات کو اتراکھنڈ پولس نے نفی کی ہے، ریاست کے اے ڈی جی قانون نظم ونسق نے کہاکہ معاملے کی تحقیقات کی  جارہی ہے، ضلع میں چپے چپے پر پولس فورس تعینات کردی گئی ہے، اسی درمیان ایک ویڈیو سامنے آیا ہے جو پولس کے دعوئوں کی پول کھول رہا ہے۔ 
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہورہا ہے یہ ویڈیو اتراکھنڈ کے اترکاشی کا بتایاجارہا ہے، ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کافی تعداد میں لوگ  اپنے ہاتھوں میں لاٹھی ڈنڈے لے کر ایک گھر پر حملہ کررہے ہیں، گھر کے دروازے پر ڈنڈے مار رہے ہیں، اس دوران جے شری رام کے نعرے بھی لگائے جارہے ہیں اسی دوران وہاں پولس پہنچتی اور ہندو ئوں کو وہاں سے ہٹاتی ہے۔ نیوز ۲۴ کی ر پورٹ کے مطابق پرول پردھان سنگھٹن کی طرف سے پورے معاملے کو دیکھتے ہوئے ۱۵ جون کو قصبے میں مہاپنچایت کا اعلان کیاگیا ہے، مقامی میڈیا کےمطابق اس مہاپنچایت میں بڑا فیصلہ لیے جانے کا امکان ہے۔ پرولا مارکیٹ میں دھمکی آمیز پوسٹرس لگائے گئے جس میں کہاگیا کہ مسلمان تاجر اپنی دکان بند رکھنے اور ۱۵ جون تک ریاست سے چلے جائیں۔رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ ۱۲ خاندان اب تک ہجرت کرچکے ہیں۔ وہیں صحافی اشرف حسین نے ایک اخبار کا تراشہ ٹوئٹ کیا ہے جس میں ۹ مالکوں نے مخصوص کمیونٹی کے لوگوںسے دکان خالی کروانے کا اعلان کیا ۔  دریں اثناء اتوار کو شام ۷ بجے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ’’ہیش ٹیگ سیو اتراکاشی مسلمس ‘‘ (اترکاشی کے مسلمانوں کو بچائو) سے ٹرینڈ چلایاگیا جس میں بڑی تعداد میں صحافیوں، دانشوروں نے شرکت کی او راتراکاشی کے مسلمانوں پر ہورہے مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہ ٹرینڈ ہندوستان میں چند ہی منٹوں میں نمبر ون پر ٹرینڈ کرنے لگا اور کئی لاکھ ٹوئٹ کیے گئے۔ اس ٹرینڈ کی مخالفت میں پیر کی شام مخالف گروہ نے ہیش ٹیگ اترکاشی کے نام سے ٹرینڈ چلایا اور خوب اشتعال انگیزی کی۔ اتراکھنڈ میںپیدہ شدہ حالات پر آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ حیدرآباد لوک سبھا سیٹ سے ممبر پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے ٹوئٹ کرکے لکھا کہ ۱۵ جون کو ہونے والی مہاپنچایت پر فوراً روک لگائی جائے، وہاں رہ رہے لوگوں کو تحفظ فراہم کیاجائے گا، وہاں سے ہجرت کرنے والوںکو بلانے کا انتظام کیاجائے، بی جے پی سرکار کا کام ہے کہ گنہ گاروں کو جیل بھیجے اور جلد امن قائم ہو۔ کانگریس کے اقلیتی شعبے کے صدر اور ممبر پارلیمنٹ راجیہ سبھا عمران پرتاپ گڑھی نے ٹوئٹ کرکے لکھا کہ اترکاشی میں جس طرح نفرت کی آگ لگی ہے اسے روک پانے میں پشکر دھامی سرکار کا رویہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت خود کشیدگی ختم نہیں کرناچاہتی، مسلم سماج کے تاجروں کو ہجرت کرنا پڑرہا ہے، مہاپنچایت کا اعلان ہورہا ہے اور پولس چپ چاپ تماشہ دیکھ رہی ہے۔ بتادیں کہ ۲۶ مئی کو ایک مسلمان اور ایک ہندو دو افراد نے مبینہ طور پر ایک ۱۴ سالہ لڑکی کے اغوا کی کوشش کی‘ جس کے بعد اصل گڑبڑ شروع ہوئی۔ چند افراد نے لڑکی کے اغوا کی کوشش کو لوجہاد کامعاملہ قرار دیا اگرچیکہ پولیس نے دو ملزمین کو گرفتار کرلیاہے مگر دائیں بازو کے چند گروپس نے احتجاج منظم کرتے ہوئے مسلمانوں کے مکانات و دکانات پر حملے کئے۔۲۹ مئی کو پرولا میں منظم احتجاجی مارچ پر تشدد ہوگیا‘چند احتجاجیوں نے مسلمانوں کے دکانات اور مکانات پر حملے کئے۔ اس طرح کاایک اور احتجاج۳ جون کو منظم کیاگیا۔ یہ احتجاج‘یمنا گھاٹی ہندوجاگرتی سنگھٹن کے بیانر تلے منعقد کیاگیا جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ جبکہ سینئر صحافی ترلوچن بھٹ کے مطابق اترکاشی میں جس معاملے کو لوجہاد بتایاگیا ہے اس کی اصلیت یہ ہے کہ لڑکی کا جتیندر سینی نام کے لڑکے سے معاشقہ تھا، لیکن عبید خان بھی اس درمیان اس کے ساتھ گھومنے جارہا تھا اس لیے اسے لوجہاد سے جوڑ دیاگیا جو کہ غلط ہے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر