اتراکھنڈ میں دھامی سرکار کے لیے سب ٹھیک نہیں ہے ۔ اور یہ ٹھیک نہ ہونا ہی ہے جس نے اتراکھنڈ کو ’ فرقہ وارانہ تشدد ‘ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ۔ وزیراعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کو ، بی جے پی کے اندر سر اٹھاتی گروہ بندیوں کا سامنا تو ہے ہی ، حکومت کی ناکامیوں نے انہیں مزید کمزور پِچ پر لا کھڑا کیا ہے ۔ روزگار ، مہنگائی اور ترقی سمیت ہر محاذ پر ناکامیوں سے بی جےپی کی نیّا وہاں بھنور میں پھنس گئی ہے ۔ اور اگر سیاسی تجزیہ نگاروں کی مانی جائے تو آنے والے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کے سامنے شکست منہ پھاڑے کھڑی ہوئی ہے ۔ لہذا بی جے پی نے وہی پُرانا ’ دھرم کے نام پر فرقہ وارانہ جذبات کو اکسانے ‘ کا کھیل شروع کیا ہے ۔ یوں تو سارا اتراکھنڈ فرقہ پرستی کی آگ میں جل رہا ہے ، لیکن سب سے زیادہ خراب حالات اترکاشی کے ہیں ، جہاں سے مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ، انہوں نے اپنے مکانوں اور دوکانوں پر تالے لگا دیے ہیں ، اور محفوظ مقامات کی جانب کوچ کر گئے یا کوچ کر رہے ہیں ۔ ایک نابالغ ہندو لڑکی کے اغوا کی کوشش کی ایک افواہ اڑائی گئی ، ’ لو جہاد ‘ کا راگ چھیڑا گیا ، حالانکہ پولیس نے دو لوگوں کو گرفتار بھی کیا ، لیکن مسلمانوں کو یہ دھمکی دے دی گئی کہ وہ ۱۵ ، جون تک اترکاشی سے اپنے مکانوں اور اپنی دوکانوں کا خالی کر کے چلے جائیں ۔ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ۱۵ ، جون کو مسلمانوں کے خلاف ’ مہا پنچایت ‘ کی جائے گی ۔ جو پوسٹر لگائے گئے ہیں وہ ازحد اشتعال انگیز ہیں ، لکھا ہے کہ ’ لو جہادیوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ بتاریخ ۱۵، جون کو ہونے والی مہا پنچایت سے پہلے اپنی دوکانیں خالی کر دیں ، اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو وقت طے کرے گا ‘۔ یہ پوسٹر سارے اتراکاشی میں چسپاں کیے گئے ہیں ، اور ان پوسٹروں کے بعد سے شرانگیزی میں اضافہ ہوا ہے ۔ مسلمانوں کو ڈرانے اور دھمکائے جانے کے واقعات بڑھے ہیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارے اترکاشی کے حالات کشیدہ ہوگئے ہیں ۔ اترکاشی کے مٹھی بھر مسلمان اپنی جان اور مال کے خوف سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ، اور اب تک ۱۲ مسلم خاندان اترکاشی چھوڑ چکے ہیں ۔ جو اطلاعات آئی ہیں ان کے مطابق ہندو تنظیموں نے کئی جلوس نکالے ہیں ، اور ان جلوسوں کے دوران مسلم کاروباریوں کی دوکانوں پر لگے بینر اور بورڈ اتارے اور توڑے گئے ہیں ، اور مسلمانوں کی دوکانوں پر کراس کے نشان لگائے گئے ہیں ۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ یہ سارے کام پولیس کی موجودگی میں کیے گئے ہیں ۔ اتراکھنڈ میں ہندو ۸۲ فیصد اور مسلمان ۱۳ فیصد ہیں ، لیکن اترکاشی میں ہندوؤں کی آبادی ۹۸ فیصد سے زائد ہے ، اور اِس آبادی میں مسلمانوں کا حصہ بس ایک فیصد سے کچھ ہی زائد ہے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سارے اترکاشی میں کُل مسلمان ۴ ہزار ۱۱۲ ہیں ، یہ بہت ہی قلیل تعداد ہے ، اس لیے اِن میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے ۔ لیکن خوف و ہراس پھیلنے کی بنیادی وجہ دھامی سرکار کا ساری کشیدگی اور ساری دھمکیوں سے آنکھوں اور کانوں کا بند کرنا ہے ۔ نابالغ لڑکی کا معاملہ ۲۶ ، مئی کا ہے ، اسے کچھ لوگوں نے ایک ہندو نوجوان جتیندر سینی کے ساتھ پکڑا تھا ، اس وقت جتیندر کے ہمراہ عبید نام کا ایک مسلم نوجوان بھی تھا ، لہذا سارے معاملے کو ’ لو جہاد ‘ کا رنگ دے دیا گیا ۔ سینی اور عبید پر پولیس نے پوکسو ایکٹ کے تحت معاملہ درج کر لیا ہے ، دونوں حراست میں ہیں ۔ ایک مقامی سینئر صحافی ترلوچن بھٹ کے مطابق لڑکی کا سینی سے معاشقہ تھا ، وہ اس کے ساتھ گھومنے گئی تھی ، عبید بھی ان کے ساتھ تھا ، اس لیے اس معاملہ کو مذہبی رنگ دے دیا گیا ۔ پولیس کے پاس حقائق ہیں ، حکومت بھی یہ بات جانتی ہے ، لیکن سب آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں ۔ شرم ناک بات یہ ہے کہ مہاپنچایت کا اعلان کردیا گیا ہے ، جواب میں دہرادون کے مسلمانوں نے ۱۸ ، جون کو مہاپنچایت کا اعلان کردیا ، جگہ جگہ اشتعال انگیز پوسٹر لگائے گئے ہیں ، مسلمانوں کو اترکاشی چھوڑ کر چلے جانے کی دھمکی دے دی گئی ہے ، لیکن دھامی سرکار نے کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے ۔ اب تک مہاپنچایت کا اعلان کرنے والوں کو بھی پولیس نے کوئی نوٹس نہیں دیا ہے ۔ دوکانوں اور مکانوں کو نشان زد کرنے کا کام ’ جئے شری رام ‘ کے نعروں کے بیچ کیا جا رہا ہے ، لوگوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے جا رہے ہیں ، توڑپھوڑ کی جا رہی ہے ، لیکن انتظامیہ سوئی ہوئی ہے ۔ کہنے کو تو دھامی سرکار نے یہ بیان دیا ہے کہ اتراکھنڈ کا امن بگڑنے نہیں دیں گے اور کسی کو خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، اور پولیس بھی یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ شرپسندوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی ، لیکن کارروائی کی نہیں جا رہی ہے ، اور معاملہ کسی بڑے تشدد کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ مرکز کی مودی سرکار کی طرف سے اب تک کوئی بیان نہیں آیا ہے ، ویسے بھی اُن سے کوئی امید نہیں ہے ۔ لیکن جن سے امید ہے وہ بھی خاموش بیٹھے ہوئے ہیں ، مثلاً مسلم تنظیمیں اور جماعتیں اور مسلم قائدین ۔ ۲۶، مئی سے ہنگامہ ہورہا ہے ، مسلمان ہجرت کر رہے ہیں لیکن مسلم قائدین کو جیسے کوئی خبر ہی نہیں ہے ! مسلم پرسنل لا بورڈ کے نئے عہدیداران جشن منا رہے ہیں ، اور جمعیۃ علماء ہند و جماعت اسلامی کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آ رہا ہے ۔ عدلیہ اور سیاسی پارٹیاں بھی چپّی سادھے ہوئے ہیں ۔ اتراکھنڈ میں بی جے پی اور کانگریس ہی میں ٹکر ہے ، لیکن کانگریس میں سوائے عمران پرتاپ گڑھی کے کسی اور لیڈر کا بیان نظروں کے سامنے سے نہیں گزرا ہے ۔ عمران پرتاپ گڑھی نے دھامی سرکار پر سخت نکتہ چینی کی ہے ، انہوں نے کہا ہے کہ ’ لگتا ہے دھامی سرکار خود یہ کشیدگی روکنا نہیں چاہتی ‘۔ مجلس اتحاد المسلمین کے صدر ایم پی اسدالدین اویسی نے بھی سخت بیان دیا کہ مہاپنچایت پر روک لگے ، شرپسندوں کے خلاف کارروائی ہو اور جو ہجرت کر گئے ہیں انہیں واپس بلایا جائے اور لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ ٹوئٹر پر ’ ہیش ٹیگ سیو اتراکاشی مسلمس ‘ کا ٹرینڈ بھی چلا جو نمبر ایک رہا اور ساری دنیا میں اترکاشی کے مسلمانوں کی حالت سے لوگ واقف ہوئے ۔ بین الاقوامی نیوز چینل الجزیرہ نے خصوصی رپورٹ بھی پیش کی ،لیکن دھامی انتظامیہ لاپرائی برت رہی ہے ۔ اسے اتراکھنڈ الیکشن جو جیتنا ہے ۔ ساری کشیدگی مسلمانوں کو خوف زدہ کرکے الیکشن سے دور رکھنے پر کی جا رہی ہے ۔ کوشش ہے کہ نفرت کی لہر چلا کر ، وہ الیکشن جس میں ہار طے ہے ، جیت لیا جائے ۔ اس ملک میں اگر جمہوریت کو واقعی بچانا ہے تو سارے شہریوں کو بلالحاظ مذہب دھامی سرکار کے خلاف اور اترکاشی کے مسلمانوں کی حمایت میں آواز اٹھانا ہوگی ۔ اور اترکاشی کو بچانا ہوگا ۔
0 Comments