گزشتہ دنوں بہوجن سماج( دلت آدی واسیوں) کے سب سے باوزن لیڈر پرکاش امبیڈکر نے اس وقت سب کو چونکا دیا جب وہ حضرت اورنگ زیب عالمگیرؒ کی مزار پر جا پہنچے اور مرحوم شہنشاہ کو گلہائے عقیدت پیش کیے۔ پرکاش امبیڈکر نے یہ قدم، مسلمانوں پر اورنگ زیب ؒ کے نام سے بڑھتی ہوئی ظالمانہ کارروائیوں اور ہندوتوا نفرت کےخلاف اپنا احتجاج درج کرانے کے لیے اٹھایا۔ گزشتہ دنوں مہاراشٹر کے کولہاپور میں مسلمانوں کے خلاف تب نفرتی فساد پھوٹ پڑا تھا جب چند مسلم نوجوانوں نے اورنگ زیب عالمگیرؒ کی تصویر کو اپنے سوشل میڈیا اسٹیٹس پر پوسٹ کیا، کئی ایک مسلم بچوں کے خلاف صرف اس لیے کارروائی کی گئی کہ وہ اورنگ زیب عالمگیرؒ کی تعریف کر رہے تھے *پرکاش امبیڈکر نے عملًا کہا کہ یہ مسلم سماج کےساتھ آخری درجے کی داداگیری اور غنڈہ گردی ہے کہ آپ صرف کسی مسلم بادشاہ کا اسٹیٹس لگانے کی وجہ سے ان کے بچوں کو ماریں، ستائیں اور کارروائی کریں، میں اورنگ زیبؒ کی مزار پر جا رہا ہوں اب تم میرے خلاف کارروائی کر کے دکھاؤ، حضرت اورنگ زیبؒ کو اچھوت بنانے کی ہندوتوا کوششوں پر، پرکاش امبیڈکر کا یہ اقدام بڑی اخلاقی اور سیاسی حمایت ہے، یہ بےحد جراتمندانہ قدم ہے اس جرات کی نوعیت آج کے ملکی سیاسی ماحول میں اتنی سنگین ہے کہ بعض ہندوتوا نوازوں کےمطابق پرکاش امبیڈکر نے مسلمانوں کی حمایت میں یہ قدم اٹھاکر سیاسی خودکشی کی طرف قدم بڑھایا ہے، لیکن بزدلوں کو نہیں معلوم کہ جرات و جسارت اور شجاعت و متانت والی سیاست ہر نفرتی اور ظالمانہ سیاست کا خاتمہ کرتی ہے، پرکاش امبیڈکر نے جو کیا وہ بہادری کی اعلٰی مثال ہے* سنگھی بزدلوں یا امبیڈکروں کو اپنے ماتحت دیکھنے کی خواہش رکھنے والے ہندوتوا برہمنوں کو اس بہادری سے ڈر لگنا فطری ہے وہ سمجھتے تھے کہ جو ہم مسلمانوں کےخلاف کہہ دیں یا لکھ دیں یا جو بھی نفرت پھیلا دیں گے اس کے خلاف جانے کی ہمت خود مسلمان بھی اب نہیں کرسکتا ہے ایسے میں کسی امبیڈکر کا عملی میدان میں اتر کر ہندوتوا کے اورنگ زیبؒ والے پروپیگنڈے کے خلاف کھڑا ہونا آر ایس ایس کے برہمنوں کو تکلیف تو پہنچائے گا ہی۔ مسلمانوں کو پہچاننا چاہیے کہ ان کےساتھ کون ہے اور نقصان کی پرواہ کیے بغیر ہے۔ پرکاش امبیڈکر ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے پوتے، ماہرِ قانون، اور سابق ممبر آف پارلیمنٹ بھی ہیں۔
اس وقت اورنگ زیبؒ کو لے کر آر ایس ایس اور بھاجپا کے ہندوتوا غنڈوں نے ایسا زہریلا ماحول بنادیا ہے کہ ان کا نام بڑے سے بڑے مسلم لیڈر بھی نہیں لے رہے بلکہ بعض مسلم نام والے سیاستدانوں نے تو اپیل کی ہے کہ مسلمان اورنگ زیبؒ سے دستبردار ہوجائیں، ایسے ماحول میں ایک شخص جو بظاہر مسلمان بھی نہیں ہے وہ اٹھتا ہے اور کسی بھی دباؤ، نقصان یا خطرے کی پرواہ کیے بغیر مسلمانوں کو حوصلہ اور ہمت دلاتے ہوئے کہتا ہے کہ نہیں! تم اپنی تاریخ اور اپنے تاریخی سلاطین کے بارے میں کسی طرح کے خوف اور احساس کمتری کا شکار مت بنو اپنی تاریخ سے وابستہ رہو، ایسا شخص لیڈر کہلانے کا مستحق ہے، اسے کم از کم سیاسی وابستگیوں سے اوپر اٹھ کر سراہا جانا چاہیے، مسلمانوں کی یہ بلند تاریخ رہی ہے کہ انہوں نے برے اور خطرات کے وقت میں اپنے ساتھ کھڑے ہونے والوں کو کبھی فراموش نہیں کیا ہے، میں ذاتی طور پر ملّتِ اسلامیہ کی جانب سے پرکاش امبیڈکر کا شکریہ ادا کرتا ہوں اس سے پہلے بھی آپ نے مسلمانوں کے حق اور حمایت میں کئی صریح موقف اختیار کیے ہیں جو آپ کے اندر موجود انصاف پسندی کے جذبے اور صاحبِ علم ہونے کے وصف کو آشکار کرنے کے ساتھ ساتھ آپکی بہادری کا بھی واضح ثبوت ہے، جو انسان مضبوط تعلیمیافتہ ہونے کےساتھ ساتھ بہادر بھی ہوتا ہے بزدل لوگ اس سے دور بھاگتے ہیں اور عوامی مقبولیت اس کے قدموں میں آتی ہے، کسی کےپاس علم ہو لیکن ساتھ میں بہادری کی جگہ بزدلی ہو تو وہ صاحبِ علم بھی سرکاری چاپلوس بنتے ہیں اور اگر علم کےساتھ بہادری بھی ہو تو وہ خود سرکاریں بناتے ہیں ایمپائر کھڑا کرتےہیں، ہم اگر آج آپکا شکریہ ادا کررہے ہیں تو یقین رکھیے کہ آنے والی تاریخ میں بھی آپکو خراجِ تحسین پیش کیا جائےگا، انصاف و عدالت کے لیے ظلم و نسل پرستی کے خلاف کھڑے ہونے والے لوگ تاریخ میں یاد کیے جاتے ہیں، آپ تاریخی شخصیت بننے کی راہ پر ہیں _۔
0 Comments