آگرہ: مسجد نہر والی میں خطبہ جمعہ کے دوران خطاب کرتے ہوئے الحاج محمد اقبال آج اسلام کے ایک اہم رکن حج اور قربانی کی بات کرتے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا کے مسلمان مکہ المکرمہ پہنچ رہے ہیں اللہ کے گھر کا طواف کرنے اور میدانِ عرفات میں حاضر ہونے، عرفات کی حاضری ہی حج ہے، جو مسلمان عرفات میں نہیں پہنچ سکتا وہ اپنے ملک میں عید الضحیٰ کی نماز ادا کرتا ہے اور اللہ کو اپنی قربانی پیش کرتا ہے یہ قربانی کیا ہے؟ اور کیوں کرتے ہیں؟ دراصل یہ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔
افسوس ہم کو صرف “ قربانی“ یاد ہے قرأن میں درج “ باپ بیٹے “ کی بات چیت نہیں معلوم جو کہ اصل چیز ہے۔ سورہ الصّفٰت آیت نمبر ۱۰۰ سے ۱۰۷ تک یہ بات چیت درج ہے اس میں کہا گیا ہے “ اے میرے رب مجھے صالح بیٹا عطا فرما، چناچہ ہم نے انہیں بردبار بیٹے کی بشارت دی، پھر جب وہ بیٹا ان کے ہمراہ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچا، تو ابراہیم نے کہا، بیٹے میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں، اب بتلاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا، ابا جان وہی کچھ کیجیے جو آپ کو حکم ہوا ہے، آپ ان شاءاللہ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے، پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کردیا اور ابراہیم نے بیٹے کو پیشانی کے بل گرادیا، تب ہم نے اسے پکارا، اے ابراہیم تم نے خواب کو سچ کر دکھایا، ہم یقیناً نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی صلہ دیتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی ان کا فدیہ دیا۔“ یہ بات چیت ہم کومعلوم ہی نہیں ہے، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ کے حکم کے آگے اپنے لخت جگر کو قربان کرنے کو تیار ہوگئے ہم کتنا اللہ کے حکم کو مان رہے ہیں ؟ ہر ایک کو اس پر سوچنے کی ضرورت ہے یہ ہی قربانی کے پیچھے کا مطلب ہے، قربانی کرتے وقت یہ بات اپنے ذہن میں رکھیں، کہ اے اللہ جس طرح تیرے خلیل کی یہ سنت ادا کررہا ہوں، میں اپنی زندگی میں تیرے حکم کو بھی اسی طرح مانوں گا، اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرماے, آمین.
0 Comments