گزشتہ 16/جون 2023 کی صبح آٹھ بجے ہمارے درمیان سے ایک ایسی شخصیت رخصت ہوگئے جن کی کمی اور کسک ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی، ایک ایسے با وقار اور بافیض عالم دین، محدث، مفکر، مورخ اور درجنوں کتابوں کے مصنف استاذ محترم حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی جنہیں نہ چاہتے ہوئے بھی اب رحمتہ اللہ علیہ لکھنا پڑرہا ہے۔مولانا فالج کی وجہ سے گزشتہ کئی سالوں سے علیل تھے، علالت کے باوجود انہوں نے خودکو کبھی بیمار نہیں سمجھا اور فون کال اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اپنے عزیزوں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ جاری رکھا۔ان کے انتقال سے صرف اہل خانہ نہیں بلکہ متعلقین اور شاگردوں کی ایک بڑی تعداد بے چین اور غم زدہ ہیں۔مولانا کاانتقال یقینا علمی حلقہ کیلئے عظیم خسارہ ہے۔
مولانا اسلام قاسمی اس وقت ملک کے صف اول کے علماء میں شمار کئے جاتے تھے، ان کی چالیس سالہ تدریسی خدمات کے درمیان بہت سے ایسے ہونہار علماء تیار ہوئے ہیں جو ان کے مشن اور وژن کو عالمی سطح پر آگے بڑھنے میں لگے ہوئے ہیں، مولانا عربی زبان وادب کے ماہر اور اپنے فن کے بے تاج بادشاہ تھے، ان کے پڑھنے، پڑھانے، لکھنے، لکھانے اور تربیت کا انداز نرالا تھا، اپنے عزیزوں سے بے تکلفی سے گفتگو کرتے اور اصل کا م پر ہمیشہ توجہ دلاتے رہتے۔مولانا اصول پسند اور نظریات کے پابندتھے، نقصان کی پرواہ کئے بغیر وہ اپنے اصول سے کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔
مولانا 16فروری1954میں پیداء ہوئے، اپنا تعلیمی سفر آبائی وطن راجہ بھٹیا ضلع جامتاڑا (جھارکھنڈ) سے شروع کیا، اس کے بعد جامعہ حسینیہ گریڈیہہ، اشرف المدارس کلٹی بروان، مظاہر علوم سہار نپور ہوتے ہوئے 1968میں دارالعلوم دیوبند آئے اور 1971میں دورہ حدیث شریف سے فارغ ہوئے، اگلے سال یہیں سے عربی زبان وادب اور فن خطاطی میں تخصص کیا اور 1975میں شعبہ افتاء سے فارغ ہوئے۔دارالعلوم دیوبند کے علاوہ عصری اداروں سے بھی مستفیض ہوئے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہائی اسکول، جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب، کامل اور آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے اردوکی ڈگری بھی حاصل کی۔
شعبہ افتاء سے فراغت کے بعد1976میں دارالعلوم سے پندرہ روزہ عربی رسالہ الداعی کااجراء ہوا،اس کی ادارت مولانا وحید الزماں کیرانویؒکے سپرد تھی، انہوں نے دو معاون طلب کئے، دوسرے معاون کے طور پر آپ کا تقرر ہوا، پہلے معاون مولانا بدرالحسن قاسمی (مقیم حا ل کویت)تھے اور یہ ذمہ داری مسلسل چھ برس 1982تک جاری رہی۔
مولانا محمد اسلام قاسمی کی صحافتی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے نوجوان صاحب قلم نایاب حسن قاسمی اپنی کتاب دارالعلوم دیوبند کا صحافتی منظرنامہ میں لکھتے ہیں۔
مولانا کو عربی و اردو دونوں زبانوں میں ذوق تحریر و انشا تھا،چناں چہ دوران طالب علمی میں جہاں سجاد لائبریری کے ماہانہ ترجمان البیان کی ادارت کی اور ماہ نامہ مفتی، ماہ نامہ اسلاف، اور دیگر رسائل و جرائد میں مضامین لکھے، وہیں عربی کے جداری میگزین الیقظہ، الروضہ اور الکفاح میں بھی مسلسل لکھتے رہے۔1976میں دارالعلوم کے عربی رسالہ الداعی کے نائب مدیر بنائے گئے اور 1982تک الداعی میں عربی مقالات کے ساتھ اردو کے رسائل ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند، پندرہ روزہ اشاعت حق، ہفت روزہ ہجوم اور ہفت روزہ الجمعیتہ وغیرہ میں بھی مولانا کی تحریریں مسلسل شائع ہوتی رہیں۔صدسالہ اجلا س کے بعد 1983میں ایک ذاتی عربی رسالہ الثقافہ کے نام سے جاری کیا،1984میں ماہ نامہ طیب کی ادارت کی، اس کے علاوہ دارالعلوم وقف دیوبند کے ترجمان پندرہ روزہ ندائے دارالعلوم کے دس سال سے زائد تک رکن مجلس ادارت رہے، ساتھ ہی ملک کے مختلف رسائل و اخبارات میں بھی دینی، علمی تاریخی، سماجی، سیاسی و اصلاحی موضوعات پر مسلسل مضامین لکھتے رہے۔مولانا کی تحریریں سلاست و پرکاری کا بھی عمدہ نمونہ پیش کرتی ہیں اور انہیں پڑھتے ہوئے قاری کسی قسم کے اٹکاؤ، الجھاؤ اور پیچیدگی کا قطعا شکار نہیں ہوتا۔
1983میں مولانااسلام قاسمی دارالعلوم دیوبند کے قضیہ نامرضیہ اور ہنگامے کے بعد دارالعلوم وقف دیوبند سے منسلک ہوگئے اور شبانہ روز محنت اور جہد مسلسل سے درس وتدریس کے میدان میں ایک کامیاب اور مقبول استاذ کی حیثیت سے متعارف ہوئے، آپ نے ابتداء سے انتہاء تک کی اکثر کتابوں کا درس دیا، آخری ایام میں مسلم شریف، المختارات العربیہ، حجتہ اللہ البالغہ جیسی اہم کتاب آپ سے متعلق رہا۔آپ کا درس بیحد مقبول تھا، طلباء پورے شوق و ذوق کے ساتھ آپ کے پڑھانے کا انتظار کرتے تھے، منفرد لب ولہجہ اور نہایت ہی باوقار انداز میں طلبائے دورہ حدیث کو پڑھاتے، حدیث کے ساتھ اسلامی تاریخ اور تاریخ ہند کی تشریح جس انداز سے کرتے وہ بہت نرالا ہوتا تھا، بچوں کے ساتھ نہایت شفقت اور پیار کا معاملہ کرتے تھے،ڈر اور خوف سے دور مولانا کے درجے میں طلباء کی تعداد زیادہ رہتی تھی، وہ جب پڑھاتے تو واقعتا ایک اچھے استاذ ہونے کا حق اداکردیتے تھے۔مولانا دارالعلوم وقف کے شعبہ عربی زبان و ادب کے بانی و سربراہ تھے۔
الحمدللہ اس حقیر کو بھی حضرت مولانا کی شاگردی کا شرف حاصل ہے، ایک ہزار طلباء کے درمیان اکثر کلاس میں تلاش کرلیا کرتے تھے، فراغت کے بعد جب ہم میدان صحافت سے وابستہ ہوئے تو مولانا نے بیحد خوشی کااظہار کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کی، دیوبند سے واپسی پراپنے آبائی وطن سہرسہ میں وژن انٹرنیشنل اسکول کے قیام سے بے انتہاء خوش ہوئے اور اکثر خود فون کرکے ادارہ سے متعلق معلومات کرنا اور مفید مشورے سے نوازا ایک معمول بن گیاتھا، جب بھی دیوبند میری حاضری ہوتی ضرور ملنے جاتا تھا، مولانا نسیم اختر شاہ قیصر صاحب ؒکی وفات کے بعد ملنے گیا تو مولانا بہت غم زدہ تھے، ان دونوں استاذ سے میرا خاص تعلق تھا، زمانہ طالب علمی میں ایک عرصہ تک عصر بعد مولانا سے عربی اور اردو تحریر سیکھنے جاتا تھا،مولانا بے لوث محبت کرنے والے ایک عظیم استاذ اور مربی تھے۔
مولانا صرف میدان تدریس اور میدان تصنیف نہیں بلکہ ایک تحریکی شخصیت کے مالک تھے، خاموشی سے افراد سازی پر توجہ دیتے تھے، جو طلباء ذہین ہوتے ان کی ہر ممکن رہنمائی اور رہبری فرماتے تھے، آپ کا شمار دارالعلوم وقف کے بانیان میں ہوتا تھا، دارالعلوم وقف کی تعمیر وترقی اور اس ادارے کوبلندی تک پہچانے میں آپ جیسے اساتذہ کااہم کردار ہے، مولانا اسلام صاحب کی فکری صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ہمارے بزرگوں نے انہیں امارت شرعیہ بہار، اڈیسہ و جھارکھنڈ کا رکن شوری اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسے اہم اداروں سے بھی جوڑے رکھا، دوسال قبل مولانا محمد ولی رحمانی صاحب ؒ کے انتقال کے بعد انتخاب امیر شریعت کے موقع پر علالت کے باوجود آپ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ تشریف لائے تھے اور اکابرین امارت شرعیہ سے اپنے تعلقات کاکھلے لفظوں میں اظہار کیا تھا۔
مولانا محمد اسلام قاسمی کو تصنیف و تالیف میں خاص ملکہ حاصل تھا،علمی دنیا میں آپ کی تحریروں اور کتابوں کو بیحد پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اب تک کل سترہ کتابین منظر عام پر آکر مقبولیت حاصل کرچکی ہیں۔
(1) دارالعلوم دیوبند کی ایک صدی کا علمی سفرنامہ (2)مقالات حکیم الاسلا م(3) ترجمہ مفیدالطالبین(4)ضمیمہ المنجد اردو،عربی (5)القراء ۃ الراشدہ ترجمہ اردو، تین حصے(6) جد ید عربی میں خط لکھئے (7) جمع الفضائل شرح شمائل ترمذی (8)ازمۃ الخلیج عربی(9) خلیجی بحران اورصدام حسین(10)منہاج الابرارشرح اردو مشکوۃالآثار(11) دارالعلوم دیوبند اور حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ (12)درخشاں ستارے(13) رمضان المبارک فضائل و مسائل (14) زکوۃ وصدقات اہمیت و فوائد(15) دارالعلوم دیوبند (16)خانوادہ قاسمی(17)متعلقات قرآن اور تفاسیر۔
مولانا مرحوم کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور دو صاحبزادے، بڑے انجینئر قمرالاسلام صاحب جو بنگلور میں رہتے ہیں اور دوسرے برادرم مولانا بدالاسلام قاسمی جو جامعہ امام محمد انورشاہ میں استاذ حدیث ہیں اور مولانا کے حقیقی جانشیں ہیں، نہایت محنتی، تخلیقی ذہن اور لکھنے پڑھنے کاعمدہ ذوق ہے، اللہ پاک تمام اہل خانہ او ر متعلقین کو صبر جمیل عطافرمائے۔نمازجنازہ دارالعلوم دیوبند کے احاطہ مولسری میں ادا کی گئی اور قبرستان قاسمی میں سپرد خاک کردئیے گئے۔مولانا کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد ملک و بیرون ملک میں اہم عہدوں پر فائز ہیں اور ہمہ جہت خدمات انجام دے رہے ہیں، اللہ پاک مولانا مرحوم کی تمام تر خدمات کو قبول فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے۔مولانا کی وفات پر پوری علمی برادری غمگین ہیں، اللہ پاک مادرعلمی دارالعلوم وقف اور ان تمام اداروں کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے،آمین۔
0 Comments