Latest News

مودی سے سوال پوچھنے پر سبرینہ صدیقی بھکتوں کے نشانے پر وائٹ ہاؤس نے مذمت کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول اور جمہوریت کے خلاف قرار دیا۔

نئی دہلی: وائٹ ہاؤس نے وزیراعظم نریندر مودی سے انسانی حقوق کے حوالے سے سوال پوچھنے پر مسلمان خاتون صحافی کو ’آن لائن ہراسیت‘ کا نشانہ بنانے کی مذمت کی ہے۔این ڈی ٹی وی کے مطابق وال سٹریٹ جنرل سے وابستہ صحافی سبرینہ صدیقی نے امریکی صدر جو بائیڈن کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران نریندر مودی سے ’انڈیا میں جمہوریت‘ سے متعلق سوال پوچھا تھا۔وائٹ ہاؤس کی نیشنل سکیورٹی کے اعلٰی افسر جان کربی سے جب صحافی کو ہراساں کیے جانے کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’وائٹ ہاؤس اس معاملے سے باخبر ہے کہ خاتون کو ہراساں کیا گیا۔‘وال سٹریٹ کے مطابق صابرینہ صدیقی کا کہنا ہے جب جب سے انہوں نے نریندر مودی سے سوال پوچھا انڈیا کے اندر سے لوگ انہیں انٹرنیٹ پر شدید تنقید اور ہراسیت کا نشانہ بنا رہے ہیں اور مسلمان ہونے کی وجہ سے بھی ہدف بنایا جا رہا ہے۔جان کربی کا کہنا تھا کہ ’یہ قطعی ناقابل قبول ہے۔ ہم دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی بھی معاملے پر کسی بھی صحافت کو ہراساں کیے جانے کی مذمت کرتے ہیں۔‘ان کے مطابق ’یہ جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔‘جان کربی کے بیان کے بعد وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری کرینے جین پائری پوڈیم پر پہنچیں اور کہا کہ ’جان کربی نے جو کچھ کہا میں اس کی تائید کرتی ہوں اور وائٹ آزاد صحافت کے لیے پرعزم ہے۔ ہم ایسے کسی بھی اقدام کی مذمت کرتے ہیں جو صحافیوں ڈرانے کے لیے ہو حالانکہ وہ صرف اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں۔‘خیال رہے جمعرات کو امریکی صدر جو بائیڈن کے ہمراہ پریس کانفرنس میں صابرینہ صدیقی کے سوال کے جواب میں نریندر مودی نے کہا تھا کہ ’انڈیا میں امتیازی سلوک کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ حکومت اپنے آئین کی پاسداری کر رہی ہے۔‘اس صحافی کی جانب سے پوچھا گیا کہ ’بہت سے انسانی حقوق کے گروپ امتیازی سلوک کے بارے میں بات کر رہے ہیں کہ اختلاف رکھنے کو خاموش کروایا جا رہا ہے۔ آپ کی حکومت حالات کی بہتری اور مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں اور آزادی اظہار رائے کے حوالے سے کیا کر رہی ہے۔‘اس پر نریندر مودی کا کہنا تھا کہ ’مجھے حیرت ہے کہ یہ آپ کس بنیاد پر کہہ رہی ہیں۔ ہم ایک جمہوریت ہیں۔ جمہوریت ہماری روح ہے اور ہم ایک جمہوریت میں سانس لیتے ہیں۔‘سبرینہ صدیقی نے آن لائن تنقید کے جواب میں ایسی تصویریں شیئر کیں جن میں انہوں نے انڈین ٹیم کی ٹی شرٹس پہن رکھی تھی اور اپنے والد کے ہمراہ انڈین ٹیم کے لیے نعرے لگا رہی تھیں اور وہ انڈیا کی ہی رہنے والی ہیں۔انہوں نے لکھا کہ ’جب سے کچھ لوگوں نے میری ذاتی بیک گراؤنڈ کے بارے میں سوال اٹھایا ہے۔ اس کے بعد لگتا ہے کہ پوری تصویر دکھائی جائے۔ بعض اوقات شناختیں اس سے زیادہ پیچیدہ ہوتی ہیں جتنی وہ دکھائی دیتی ہیں۔‘

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر