دہرہ دون: اتراکھنڈ کے اتر کاشی میں فرقہ وارانہ کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے، پورولا میں نابالغ ہندو لڑکی کے اغوا کی کوشش کے الزام میں ایک مسلم سمیت دو لوگوں کی گرفتاری کے بعد ماحول کافی بگڑ گیا ہے، حالات ایسے بن گئےہیں کہ گزشتہ تین دنوں میں کئی مسلمان دکان ومکان خالی کرکے ہجرت پر مجبور ہوگئے ہیں اور شہر چھوڑ کرجانے والوں میں بی جے پی اقلیتی مورچہ کے ضلع صدر بھی شامل ہیں۔
بی جے پی لیڈر محمد زاہد یہاں ۲۵ برسوں سے رہتے تھے، انہوں نے اپنے کپڑے کی دکان خالی کردی اور اہل خانہ کے ساتھ پورولا گائوں سے نکل گئے، اسی کاروبار سے منسلک ایک اور دکاندار تین دن پہلے چلے گئے، ان دو کے علاوہ بڑی تعداد میں ۲۹ مئی کے بعد سے مبینہ طو رپر ہجرت کی ہے، زاہد تین سال پہلے بی جے پی میں شامل ہوئے تھے اور بے حد فعال تھے، ۳؍ فروری کو انہیں اترکاشی کا ضلع صدر بنایاگیا تھا۔ ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق زاہد کے جانکار دکاندار نے کہاکہ ضلع صدر بنائے جانے سے پہلے وہ کئی اہم عہدوں پر فائز تھے، بدقسمتی سے پارٹی بھی زاہد کی مدد نہیں کرسکی اور انہیں آدھی رات کو شہر چھوڑ کر جانا پڑا، اگر برسراقتدار پارٹی سے منسلک کسی شخص کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو عام عوام کا کیا ہوگا؟ انہوں نے کہاکہ کم سے کم دو اور مسلم دکاندار بی جے پی اقلیتی مورچہ میں شامل ہیں۔ یہاں گزشتہ مہینے سے مسلمانوں کی تقریباً ۳۰ دکانیں بند ہیں، ملسم دکانداروں کو جگہ چھوڑنے یا نتائج بھگتنے کےلیے تیار رہنے کی دھمکی کے بعد ایسا ہوا ہے، دکانوں پر مبینہ طو رپر دھمکی آمیز پوسٹر لگائے گئے تھے، مقامی انتظامیہ نے سینئر پولس اہلکاروں کے ساتھ مل کر میٹنگیں بھی کرائی، میٹنگ میں موجود برکوٹ کے سرکل آفیسر سریند بھنڈاری نے کہاکہ ہم پرامن حل کی کوشش کررہے ہیں، پولس نے اقلیتوں کو تحفظ کا بھروسہ دیا ہے اس لیے وہ اپنی دکانیں کھول سکتے ہیں۔
ادھر جمعہ کو وزیر اعلیٰ پشکر دھامی نے مبینہ ’لوجہاد‘ کے خلاف ہائی پروفائل میٹنگ بلائی، اس میں ڈی جے پی سمیت ریاست کے اعلیٰ عہدیداران شامل تھے، میٹنگ ختم ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ نے کہاکہ حکومت کی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں برتی جائےگی، اتراکھنڈ پرامن ریاست ہے، اسے سافٹ ٹارگیٹ نہیں بننے دیں گے، کہا کہ ڈیموگرافک بدلائو کی وجہ سے جو بھی لوگ اس میں ملوث پائے جائیں گے ان پر سخت کارروائی کی جائے گی، حکومت جلد ہی ریاست میں ستیاپن ابھیان چلائے گی، اور ڈیموگرافک بدلائو کے سارے اعدادوشمار جمع کرے گی۔ وزیر اعلیٰ نے کہاکہ آج کے وقت میں تکنیک کا استعمال کرکے تبدیلی مذہب جیسے ریکٹ چلائے جارہے ہیں، اس پر نکیل کسی جائے گی، حکومت لوگوں کو اس کے تئیں بیدار کرنے کا کام کرے گی، وہیں یہ بھی کہاجارہا ہے کہ دی کیرل اسٹوری کے بعد زیادہ معاملےعلم میں آرہے ہیں، کیو ںکہ نابالغ لڑکیوں کے سرپرست چپ رہنے کے بجائے اب معاملے کو لے کر پولس کے پاس پہنچ رہے ہیں۔ بتادیں کہ پورولا قصبے می ںایک مسلم نوجوان عبید اور ایک ہندو نوجوان جتیندر سینتی کو مقامی لوگوں نے ۲۶؍ مئی کو نویں کلاس کی ایک نابالغ ہندو لڑکی کے ساتھ پکڑا تھا،اور پھر پولس کے حوالے کردیا تھا، اس کے بعد دونوں نوجوان کے خلاف پاکسو ایکٹ میں مقدمہ درج کرکے دونوں کو عدالتی تحویل میں بھیج دیاگیا، اس واقعے کے بعد مسلمانوں کے خلاف ہندو تو وادی تنظیموں نے مورچہ کھول دیا ان کا دعویٰ ہے کہ نوجوان ہندو لڑکی کو بہکا رہا تھا۔ اترکاشی ضلع کے پولس سپرنٹنڈٹ اپرن یدونشی نے بتایاکہ ۲۶ مئی کو تھانہ میں ایک نابالغ لڑکی کے اغوام کا معاملہ درج کیاگیا اس معاملے میں نامزد تھے، انہیں گرفتار کرلیاگیا ہے جس کے بعد عدالت نے ۱۴ دنوں کی تحویل میںبھیج دیا تھا۔ مسلمانوں کی دکانوں پر ۱۵ جون ۲۰۲۳ سے پہلے خالی کرنے اور علاقہ چھوڑ کر جانے کے پوسٹر لگا دئیے گئے ہیں، یہاں مسلم کاروباریوں کی گارمنٹس، فرنیچر، پھل، سبزی اور موٹر مکینیک کی کئی دکانیں ہیں، لیکن موجودہ حالات میں مسلمان خوف ودہشت میں ہیں اور علاقہ چھوڑ رہے ہیں۔ مبینہ اغوا کی مخالفت میں ہندو تنظیموں کے اراکین نے اترکاشی کے پرولوں اور بڑکوٹ میں جلوس کے دوران مسلم کاروباریوں کی دکانوں کے بینر اور بورڈ پھاڑ دئیے جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش بھی کررہی ہے۔ وہیں بڑکوٹ میں دکانوں پر کراس نشان کرکے مسلمانوں کی دکانوں کو نشان زد کیاگیا ہے اورپرولا میں پوسٹر چپکا کر خالی کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ دیو بھومی رکشا ابھیان کی طرف سے لگائے گئے پوسٹر وں پر لکھا ہے کہ ’لوجہادیوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ بتاریخ ۱۵ جون کو ہونے والی مہاپنچایت سے پہلے اپنی دکانیں خالی کردیں اگر تمہارے ذریعے ایسے نہیں کیاجاتا ہے تو وقت طے کرے گا‘‘۔
0 Comments