Latest News

الیعسیٰ اور ڈوبھال نے سچ کہا مگر ۔۔۔شکیل رشید۔

شکیل رشید ۔ ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز۔
رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سکریٹری ، محمد عبدالکریم العیسیٰ نے ہندوستان آمد پر ، دہلی میں ’ انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر ‘ میں ایک تقریب میں ، جس میں ملک کے سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال بھی  موجود  تھے ، جو خطاب دیا ، اُس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس سے اختلاف کیا جائے ۔ انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی قوم پرستی کی ، ہندوستانی ہونے کی ، اور ملک کے آئین پر فخر کرنے کی تحسین کی ، اور ہندوستان کو بقائے باہمی کا ایک عظیم ماڈل قرار دیا ۔ سکریٹری جنرل کی تمام باتیں درست ہیں ، لیکن یہ باتیں ، جو انھوں نے کہی ہیں ، کہنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی ، کیونکہ یہاں کے مسلمان بلا شک و شبہ اپنے ہندوستانی ہونے پر بھی فخر کرتے ہیں ، اور اپنے آئین پر بھی ، اور وہ بقائے باہمی کو بھی ضروری سمجھتے ہیں ۔ اس ملک میں دائیں بازو کے عناصر لاکھ کوشش کریں ، ثابت نہیں کر سکتے کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو اپنے ہندوستانی ہونے پر کوئی افسوس ہے ، یا کوئی رنج ، یا انھیں اس ملک کے آئین پر بھروسہ نہیں ہے ۔ یہ وہ مسلمان ہیں جن کے اجداد نے ، ملک کے بٹوارے کے بعد اس ملک میں رہنا پسند کیا ، یعنی ’ بائی چوائس ‘ وہ یہاں رہ رہے ہیں ۔ لیکن سکریٹری جنرل شاید اس سچ سے واقف نہیں ہیں ، یا واقف ہوتے ہوئے بھی اس پر بات کرنا نہیں چاہتے ہیں کہ ، اس ملک میں ایک بڑا گروہ ایسا ہے ، جو آئین کو رد کرکے اس کی جگہ اپنے دھرم کے قوانین لاگو کرنا چاہتا ہے ، اس گروہ کی طرف سے رہ رہ کر ملک کو ہندو راشٹر قرار دینے کا مطالبہ تک ہوتا رہتا ہے ، اور اس کے لیے اُس نے اس ملک کی فضا کو انتہائی مسموم کر دیا ہے ۔ عبدالکریم العیسیٰ کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ، مسلمانوں کو اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر ہے ، لیکن یہ بھگوا عناصر ہیں ،جو اس ملک میں ’ گھر واپسی ‘ کی تحریک چلا کر ، اور بار بار ’ پاکستان چلے جانے کا مشورہ دے کر ‘ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ان کے سینوں میں مسلم دشمنی بھری ہوئی ہے ۔ یہ عناصر اسلاموفوبیا کے مظاہرے کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر سکریٹری جنرل نے ، اجیت ڈوبھال کی موجودگی میں اپنی تقریر میں ، اس ملک کی آج کی فضا پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہوتا ! کاش الیعسیٰ کھل کر یہ کہتے کہ بقائے باہمی کا تقاضہ یہ ہے کہ ، وہ جو اکثریت میں ہیں ، ایک بڑے بھائی کی طرح ، اس ملک کی اقلیت کو ، دلتوں اور پچھڑوں کو اور آدی واسیوں و کمزوروں کو ساتھ لے کر چلیں ، وہ انھیں یہ احساس نہ ہونے دیں کہ اس ملک میں وہ پرائے ہیں ۔ بابری مسجد ، بلقیس بانو ، گجرات فسادات مان لیتے ہیں کہ پرانے معاملات ہیں ، لیکن کیا الیعسیٰ کی نظر سے اتراکھنڈ کے آج کے حالات نہیں گزرے ہوں گے ، کیا انھیں پتہ نہیں چلا ہوگا کہ وہاں کے اُتر کاشی علاقہ میں مسلمانوں کو دھمکی دے دی گئی تھی کہ ، وہ مکانوں اور دوکانوں پر تالے لگا کر چلے جائیں ! یقیناً الیعسیٰ کی نظر سے یہ خبریں گزری ہوں گی ، اسی لیے ہندوستانی مسلمانوں کو یہ انتظار تھا کہ جب وہ ہندوستان پہنچیں گے تو اس ملک کی حکومت کو یہ رائے ضرور دیں گے کہ ، بقائے باہمی کے لیے یہ لازمی ہے کہ اقلیتوں میں احساسِ تحفظ پیدا کیا جائے ، انہیں خوف کے احساس سے باہر نکالا جائے ۔ لیکن سکریٹری جنرل نے ایسا کوئی مشورہ ، فی الحال تو نہیں دیا ہے ، ممکن ہے کہ وہ چھ روزہ دورے کے دوران کسی روز ایسا کوئی مشورہ اس ملک کے حکمرانوں کو دیں ۔ ظاہر ہے وہ ایک آزاد ملک کے معاملات میں دخل نہیں دے سکتے ، اور دخل دینا بھی نہیں چاہیے ، لیکن وہ اس ملک کے ایک مہمان اور ایک دوست کی حیثیت سے امن و امان کا پیغام تو دے ہی سکتے ہیں ، اور اس پیغام کے ذریعے بقائے باہمی کے حقیقی معنی سے حکراں ٹولے کو آگاہ کر سکتے ہیں ۔ اس تقریب میں اجیت ڈوبھال نے یہ کہا کہ اس ملک میں تمام مذاہب محفوظ ہیں ۔ بلاشبہ ان کی بات بھی سچ ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ جو بات انھوں نے کہی ہے اس کا احساس دلانے کے لیے انھوں نے ، ان کی حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں ؟ یہ تو اس ملک کی اقلیتیں ہیں ، بشمول مسلمان ، جو بہت سارے مسائل اور سنگھ پریوار کے بار بار کے یہ کہنے کے باوجود کہ ہندوستان میں رہنے والا ہر شخص ، مسلمان بھی ، ہندو ہے ، خود کو مکمل طور پر غیرمحفوظ نہیں سمجھ رہا ہے ، آئین پر اس کا بھروسہ بڑی حد تک قائم ہے ، وہ جانتا ہے کہ اس ملک میں برادرانِ وطن میں وہ لوگ بھی ہیں ، اور بڑی تعداد میں ہیں ، جو ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ یہ اِس حکومت کا کوئی کمال قطئی نہیں ہے ، یہ کمال اس ملک کی جمہوریت کا ہے ، جس پر اِن دنوں بجلیاں گرائی جا رہی ہیں ۔ اجیت ڈوبھال اور الیعسیٰ دونوں کو چاہیے کہ وہ حقیقی صورتِ حال کو دیکھیں ، صرف گفتار سے کام نہیں چلنے والا ۔ عملی طور پر نفرت کے پرچارکوں پر لگام لگانا ضروری ہے ، اُن پر ، جو فرقہ وارانہ خلیج حائل کرنے کے لیے رات دن ایک کیے ہوئے ہیں ، قدغن لگانا ضروری ہے ۔ اور یہ ضروری ہے کہ یونیفارم سِول کوڈ کے معاملے پر مسلمانوں سمیت یہ جو دوسری اقلیتوں میں ایک بے چینی پائی جا رہی ہے ، اُس پر روک لگائی جائے ۔ الیعسیٰ کی ہندوستان آمد کو مسلمانوں کا ایک طبقہ شک و شبہ کی نظر سے بھی دیک رہا ہے ، اس کا یہ ماننا ہے کہ الیعسیٰ کو ، جو ’ ماڈریٹ اسلام ‘ جیسی بےمعنیٰ اصطلاح کی رٹ لگائے رہتے ہیں ، استعمال کر کے یہاں کے مسلمانوں کو یونیفارم سِول کوڈ قبول کرنے پر آمادہ کیا جائے گا ۔ لیکن چونکہ الیعسیٰ ایک عالمِ دین ہیں اس لیے یہ گمان رکھنا چاہیے کہ ، وہ شرعی قوانین کی مخالفت نہیں کریں گے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر