Latest News

یوم عاشوراء کی فضلیت: ڈاکٹر تمیم احمد قاسمی۔

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
تقویمِ اسلامی کے سب سے پہلے مہینے محرم الحرام کا دسواں دن عاشوراءکہلاتا ہے۔حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہودی یوم عاشوراء کی بہت تعظیم کرتے تھے اور اس دن عید مناتے تھے۔ خیبر کے یہودیوں کی عورتیں اس دن عمدہ لباس اور زیور پہنتی تھیں۔ ’عاشوراء‘‘ کا یہ لفظ الف ممدودۂ کے ساتھ ہے’’عاشورہ‘ پڑھنا اور لکھنا جو مروج ہے۔درست نہیں ہے۔ (حاشیہ صاوی علی الشرح الھندیہ جلد آر صفحہ 691)یوم عاشوراء زمانۂ جاہلیت میں قریش مکہ کے نزدیک بھی بڑا محترم دن تھا۔ اسی دن خانۂ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا.اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے۔ قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام و اسماعیلؑ علیہ السلام کی کچھ روایات اس دن کے بارے میں ان تک پہنچی ہوں گی۔ اور رسول اللہ ﷺ کا دستور تھا کہ قریش ملتِ ابراہیمی کی نسبت جو اچھے کام کرتے تھے۔ ان میں آپؐ ان سے اتفاق اور اشتراک فرماتے تھے۔ پس اپنے اس اصول کی بنا پر آپؐ قریش کے ساتھ عاشوراء کا روزہ بھی رکھتے تھے. چنانچہ حضرت عائشہؓ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ قریش زمانہ جاہلیت میں یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ ﷺ بھی جاہلیت کے زمانے میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپؐ مدینہ تشریف لائے اور یہاں کے یہود کو بھی آپؐ نے عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان سے آپؐ کو معلوم ہوا کہ یہود کے یہاں یہ دن انتہائی مبارک و مسعود ہے. تو آپ ﷺنے اس دن روزے کا اہتمام فرمایا اور مسلمانوں کو عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھیں۔آنحضرت ﷺ نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیتے وقت فرمایا کہ یہودی دسویں محرم کو عید مناتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں.اس لئے تم نویں یا گیارہویں محرم کو روزہ رکھو اور فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو یہود کی مخالفت کرتے ہوئے تو نویں محرم کو روزہ رکھوں گا۔اس کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ والی حدیث سے بھی ہوتی ہے۔الحکم بن الأعرج کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا جبکہ وہ زمزم کے پاس اپنی چادر کا تکیہ بنائے ہوئے تھے اور میں نے پوچھا کہ مجھے یوم عاشوراء کے بارے میں بتائیے کیوں میں اس کا روزہ رکھنا چاہتا ہوں۔ ابن عباس  کہنے لگے کہ جب محرم الحرام کا چاند نظر آئے تو دن گننا شروع کر دو اور پھر نو تاریخ کی صبح کو روزہ رکھو۔ تو میں نے پوچھا کیا حضرت محمد ﷺ بھی اسی دن روزہ رکھتے تھے؟ ابن عباس کی روایت کی بنیاد حضور ﷺ کا یہی ارشاد ہے کہ میں آئندہ سال زندہ رہا تو یہود کی مخالفت کرتے ہوئے نویں محرم کو عاشوراءکا روزہ رکھوں گا۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ نے ایک موقع پر کہا کہ تم لوگ یہودیوں کی مخالفت کرتے رہو نویں اور دسویں محرم کو دونوں دن روزہ رکھو۔یوم عاشوراء کی فضیلت۔یوم عاشوراء کی فضیلت اور اس کے روزے کی اہمیت کے بارے میں متعدد روایات آنحضرتؐ ﷺ اور آپ کے صحابہؓ سے منقول ہیں چند روایات کتبِ احادیث سے پیش کی جاتی ہیں۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کے بعد سب سے زیادہ افضل روزہ محرم کا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ یوم عاشوراء کا روزہ رکھو کیوں کہ اس دن کا روزہ انبیاء کرام رکھا کرتے تھے۔ ایک موقع پر آنحضرتؐ ﷺنے حضرت علی رضی اللہ عنہ ؓ سے فرمایا اگر ماہ رمضان کے علاوہ روزہ رکھنا چاہو تو پھر محرم کا روزہ رکھا کرو۔ کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں ایک دن ایسا ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے پچھلے لوگوں کی توبہ قبول فرمائی اور اسی دن آئندہ بھی لوگوں کو توبہ قبول فرمائیں گے۔ یوم عاشورہ کے موقع پر لوگوں کو سچی توبہ کی تجدید پر ابھارا کرو اور توبہ کی قبولیت کی امید دلاؤ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس دن پہلے لوگوں کی توبہ قبول کر چکے ہیں اسی طرح آنے والوں کی بھی توبہ قبول فرمائیں گے۔ترمذی۔(بحوالہ دائرہ معارف اسلامیہ جلد12) امام العصر رئیس المحدثین حضرت علامہ محمد انورشاہ صاحب کشمیری رحمۃاللہ علیہ سابق شیخ الحدیث و صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند فرماتے ہیں کہ عاشوراءکے روزے کی تین شکلیں ہیں۔1.نویں،دسویں،اور گیارویں کے تینوں روزے رکھا جائے2.نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے۔ 3.یا صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔ ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے۔ اور دوسری شکل کا درجہ اسے کم ہے۔ اور تیسری شکل کا درجہ سب سےکم ہے۔اسی کو فقہاء کرام نے کراہت تنزیہی تعبیر کر دیا ہے۔ورنہ جس روزے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا یو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔فقط واللہ اعلم(دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)مفسرقرآن حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانیؒ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ’’نویں کو روزہ رکھنے کا آپؐ نے جو فیصلہ فرمایا اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔اور علماء نے دونوں بیان کئے ہیں، ایک یہ کہ آئندہ سے ہم بجائے دسویں کے یہ روزہ نویں محرم ہی کو رکھیں گے۔ اور دوسرا یہ کہ آئندہ سے ہم دسویں محرم کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھا کریں گے اور اس طرح سے ہمارے اور یہود و نصاریٰ کے طرز عمل میں فرق ہوجائے گا۔ اکثر علماء نے اسی دوسرے مطلب کو ترجیح دی ہے اور یہ کہا ہے کہ یوم عاشوراء کے ساتھ اس سے پہلے نویں کا روزہ بھی رکھا جائے اور اگر نویں کو کسی وجہ سے نہ رکھا جا سکے تو اس کے بعد کے دن گیارہویں کو رکھ لیا جائے۔آگے لکھتے ہیں: ’’یہ عاجز عرض کرتا ہے کہ ہمارے زمانے میں چونکہ یہود و نصاریٰ و غیرہ یوم عاشوراء دسویں محرم کو روزہ نہیں رکھتے۔ بلکہ ان کا کوئی عمل بھی قمری مہینوں کے حساب سے نہیں ہوتا اس لئے اب کسی اشتراک اور تشابہ کا سوال ہی نہیں رہا لہذا فی زمانہ رفع تشابہ کے لئے نویں یا گیارہویں کا روزہ رکھنے کی ضرورت نہ ہونی چاہیے۔واللہ اعلم(معارف الحدیث ج4 ص171)اہل عیال پر فراخی کی روایت۔ایک روایت عوام میں معروف ہے۔کہ من وسع علی عیالہ فی یوم عاشوراء وسع اللہ علیہ فی سنۃ کلھا۔ جو عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر وسعت برتے اللہ تعالیٰ اس پر پورے سال وسعت میں رکھیں گے۔اس بنا پر شامی اور صاوی وغیرہ نے اس دن بال بچوں پر خرج کرنے میں فراخی کو مستحب قرار دیا ہے۔ایک قدم آگے بڑھ کر حدیث کو بھی صحیح قرار دیا۔الغرض عاشوراء کی اہمیت و فضیلت اس بات کا متقاضی ہے کہ اس دن روزہ رکھا جائے اور پورے دن کو ذکر خداوندی اور یاد الہی میں گزارا جائے، روزہ رکھنے سے فائدہ ملے گا کہ ان دن زیادہ نیکی اور ثواب کمانے کا موقع ملے گا۔ اور ساتھ ہی اس اہم دن کو سنجیدگی کے ساتھ گزارنے کا موقع ہوگا۔ یوم عاشوراء کے متبرک موقع پر یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ اس عظیم دن کو لا پرواہی میں گزار دیا جائے۔ یا اس دن غیر مناسب کام کئے جائیں۔یومِ عاشوراءکی تاریخی اہمیت۔یوم عاشوراء بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل دن ہے۔ تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں؛ چناں چہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ1.یوم عاشوراء میں ہی آسمان وزمین قلم اور حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیاگیا۔2.اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی 3.اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔4.اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر رکئی۔5.اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ،،خلیل اللہ“ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔6.اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔7.اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔8.اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی 9.اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔10.اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔11.اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔12.اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی۔13.اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔14.اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا15.اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔16.اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دےکر آسمان پر اٹھایاگیا۔17.اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی18.اسی دن قریش خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔19.اسی دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔20.اسی دن کوفی فریب کاروں نے جگر گوشہٴ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا و حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نواسہ رسول ﷺ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ  کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔21.اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔(نزھتہ المجالس ۱/۳۴۷، ۳۴۸)۔۔۔۔۔«لشہداء کربلا کے لیے ایصال ثواب کا اہتمام۔حضرت مولانا محمد یوسف متالا رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ اجل حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی مہاجر مدنی رحمۃاللہ علیہ نےایک مجلس میں ارشاد فرمایا۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ نے عاشوراء کے دن مدینہ طیبہ میں ہم لوگوں سے پوچھا کہ آج عاشوراء کا دن ہے۔اب تک تم لوگوں نے حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کے شہداء کرام  کو یاد کرکے ان کے لیے کتنا ایصال ثواب کیا؟ ہم لوگ چپ رہے۔تو حضرت شیخ الحدیث نے سب خدام کو چپ دیکھ کر روتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہر محرم پر یکم محرم سے 10 محرم تک روزانہ شہداء کربلا اور حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ایصال ثواب کے لیے ایک ایک قرآن ختم کرنے کا اہتمام کررہا ہوں۔ہم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق پہچاننے سے بہت دور ہیں۔جو تکلیف آپ کو اتنے بڑے لاڈلے کے حادثہ پر ہوئی ہوگی اس پریشانی اورغم میں ہم نے کوئی حصہ ڈالا ؟ کہنے والوں نے کہہ دیا ہوگا کہ یہ تو فقط دوسری جماعت  یعنی شیعوں کا کام ہے۔لاحول ولا قوۃ إلا بالله العلي العظيم۔ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو یوم عاشوراءکی فضلیت و برکات سے مالامال فرمائے.آمین یا رب العالمین۔

ڈاکٹر تمیم احمد قاسمی۔ناظم۔انجمن قاسمیہ چنئی ٹمل ناڈو۔چیرمین۔أل انڈیا تنظیم فروغ اردو 9444192513

شعبہ نشرواشاعت۔انجمن قاسمیہ پیری میٹ چنئی ٹمل ناڈو انڈیا
anjumanqasimiyah@gmail.com

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر