چیتن سنگھ ہے تو ایک انسان کا نام ، لیکن چار افراد کو گولیوں سے بھوننے والا آر پی ایف کانسٹبل چیتن سنگھ ایک خاص ’ ذہنیت ‘ کی علامت ہے ، ایک ایسی ذہنیت ، جسے اس ملک میں ’ مودی واد ‘ اور ’ یوگی واد ‘ کو جسے ’ منو واد ‘ بھی کہا جا سکتا ہے ، عام کرنے کے لیے بندوق اٹھانے میں بھی جھجھک محسوس نہیں ہوتی ۔ جے پور سے ممبئی آنے والی سوپر فاسٹ ایکسپریس ٹرین میں پیر ، ۳۱ ، جولائی کی صبح جو واردات ہوئی ، وہ صرف اس لیے دہلانے والی نہیں ہے کہ ریلوئے پروٹیکشن فورس ( آر پی ایف ) کا ایک سپاہی ، جس کا فرض انسانی جانیں بچانا ہے ، چار افراد کو قتل کردیتا ہے ، یہ خبر اس لیے بھی دہلانے والی ہے کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں نفرت کا لبالب پیمانہ اب پوری طرح سے چھلکنے لگا ہے ، اور آئندہ کے دنوں میں اس نفرت کے سبب بے شمار انسانوں کی جانیں جا سکتی ہیں ؛ کشت و خون کا ایسا واقعہ ممکن ہے جو منی پور سے بھی زیادہ خوفناک ہو ۔ اب ملک ماب لنچنگ سے آگے بڑھ گیا ہے ، اب سڑکوں پر کسی کو بھی مارا پیٹا اور قتل کیا جا سکتا ہے ، وہ بھی کسی مواخذہ کے ڈر کے بغیر ۔ اجین کا واقعہ سامنے ہے ، جہاں ایک مسلم لیڈی ڈاکٹر زرین کو ہندوتوادیوں نے سڑک پر پکڑ کر مارا پیٹا ، اس کے کپڑے پھاڑے ، اس کے کزن کو بری طرح سے کُوٹا ، اور چلّاتے رہے کہ ’ جاؤ پولیس میں رپورٹ لکھاؤ پولیس ہماری جیب میں ہے ۔‘ اور جیب میں کیا ، اب تو پولیس تمہارا ہی کام کر رہی ہے ! ٹرین میں یہی تو کیا ہے ۔ جے پور سے ممبئی کی طرف آنے والی ٹرین میں جو فائرنگ ہوئی اُس میں چار جانیں گئی ہیں ۔ مرنے والوں میں آر پی ایف کا ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر ٹیکا رام مینا شامل ہے جو او بی سی برادری کا ہے ، اور باقی کے تین مسلمان ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حملہ ’ ذہنی خلجان ‘ کا نتیجہ ہے ، یہ بھی دعویٰ ہے کہ ملزم سپاہی اور مقتول افسر میں کسی بات پر ’ تو تو میں میں ‘ ہوئی تھی ، اور کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ واردات اس لیے ہوئی کہ ملزم چیتن سنگھ غصیلے مزاج کا ہے ۔ لیکن مذکورہ باتیں جو بطور جواز کہی جا رہی ہیں ، موقعۂ واردات کی وائرل ویڈیو سے غلط ثابت ہوتی ہیں ، ویڈیو سے صاف پتہ چلتا ہے کہ چیتن سنگھ نے ’ ٹارگٹ کلنگ ‘ کی تھی ۔ پہلے اس نے ایک بوگی میں ایک باریش شخص کو گولی ماری ، وہ موقعہ پر ہی جاں بحق ہوگیا ، پھر دوسری بوگی میں دوسرے کو اور اسی طرح تیسرے کو گولی ماری ۔ اُس نے گولی مارنے کے لیے بالکل وہی طریقہ اختیار کیا جس کا کبھی پی ایم مودی نے ذکر کیا تھا ، ’ کپڑے سے شناخت ‘ کا طریقہ ۔ اس کانسٹبل کو اس لیے ’ ہندوتوادی ‘ کہا جا رہا ہے کہ وہ فائرنگ کرتے ہوئے ’ یوگی ‘ اور ’ مودی ‘ کا نام لے رہا تھا ، وہ کہہ رہا تھا کہ ووٹ صرف مودی ، یوگی اور ٹھاکرے کو دیا جائے ، وہ پاکستان کا بھی ذکر کر رہا تھا ۔ اس کا مقصد ایکدم واضح تھا ، ’ یوگی اور مودی کے نام پر دہشت پھیلانا ۔‘ نفرت کس قدر گہری ہو چکی ہے ! بنیاد تو بہت پہلے ہی پڑ چکی تھی ، لیکن گجرات ۲۰۰۲ ء کے مسلم کش فسادات نے نفرت کی دیوار کو پختہ کرنے کا کام کیا ، اور بعد کے دنوں میں کبھی ’ کتے کا پلّا ‘ کہہ کر ، کبھی ’ شہریت مخالف قانون ‘ کا پروپگنڈا کر کے ، اور کبھی ’ پاکستان چلے جاؤ ‘ کا نعرہ لگا کر ، اور کبھی ’ مندر - مسجد ‘ کے نام پر نفرت کو دل اور دماغ میں اس قدر پیوست کر دیا گیا کہ بہت سے وہ افراد بھی ، جو کبھی خود کو سیکولر اور لبرل کہتے نہیں تھکتے تھے ، فرقہ پرستی کے زہر سے بھر گئے ہیں ۔ کیا اب کوئی مسافر ، جو باریش ہو ، کرتا پائجامہ پہنے ہوئے ہو ، جس کے ساتھ برقعہ پوش خواتین ہوں بغیر ڈر اور خوف کے ٹرینوں سے دوردراز کا سفر کر سکے گا ، کیا اب کسی آر پی ایف والے پر ، کسی پولیس والے پر یا کسی سیکورٹی فورس والے پر آسانی کے ساتھ اعتماد اور بھروسہ کیا جا سکے گا ؟ بھروسہ تو پہلے ہی ختم ہونے کے قریب تھا ، اس واردات نے اسے انجام تک پہنچا دیا ہے ۔ خدشہ ہے کہ اس ملزم کانسٹبل کو بچانے کی کوشش کی جا سکتی ہے، ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے ، ممبئی اور گجرات کے فسادات میں جن پولس اہلکاروں پر سنگین الزامات تھے ، سب ہی محفوظ ہیں ۔ تو کیا اس بار بھی ایسا ہی ہوگا ؟ پتہ نہیں ؛ لیکن اگر ایسا ہوا تو یہ انتہائی شرم ناک ، افسوس ناک اور انسانیت کے خلاف بہت بڑا جرم ہوگا ۔ منی پور کے بعد ٹرین کی اس واردات کا ویڈیو وائرل ہوا ہے ، یہ بھی ایک غیر معمولی واقعہ ہے ، اس کا سبب بھی فرقہ پرستی اور نسل پرستی ہے ، اس لیے یہ ضروری ہے کہ سپریم کورٹ اس پر بھی توجہ دے ۔ ریاست کی ایکناتھ شندے اور دیویندر فڈنویس کی سرکار سے بھی یہ درخواست ہے کہ وہ ہر ممکن پہلو سے تفتیش کر کے ملزم کی سزا کو یقینی بنائے ، حالانکہ امید نہیں ہے کہ یہ سرکار کسی ’ یوگی اور مودی بھکت ‘ کو سزا دلوانے کی کوشش کرے گی ۔ اگر یہ چیتن سنگھ بچ گیا تو سمجھ لیں کہ مسلمانوں کے لیے ملک میں انصاف کا جو رہا سہا دروازہ تھا ، وہ بھی بند ہو گیا ۔
0 Comments