مدیرماہ نامہ صداۓ حق گنگوہ
آج سات ستمبر 2023 پنچشنبہ کی صبح سویرے یہ المناک خبربھی سننے کو مل گئی کہ جامعہ مظاہرعلوم وقف سہارن پور کے استاذ ، باہمت ملی رہنما اور روشن ضمیر عالم دین حضرت مولاناظہوراحمد قاسمی عمادپوری وفات پاگۓ ہیں وہ گزشتہ کچھ ہفتوں سے علی شرف الرحیل تھے ، ان کے افرادخانہ متعلقین اور جمعیتی احباب برابر آپ کی دیکھ ریکھ اور تیمارداری میں لگے ہوۓ تھے لیکن آفتاب دنیا کے طلوع ہونے سے پہلے ہی ہمت وشجاعت اور دینی حمیت وغیرت کا یہ چراغ بھی گل ہوگیا ہے اناللہ واناالیہ راجعون۔
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جوشجرپرانا تھا
حضرت مولاناظہور احمدرحمہ اللہ سے قریبی واقفیت نہ ہونے کے باوجود دل میں ان کی محبت وعظمت تھی ، ان کی خدمات کا سب سے پڑا پلیٹ فارم جمعیت ہوسکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سب کیلۓ اور تمام وقت دستیاب رہتے تھے ، خصوصا دین وملت پر پڑنے والی افتاد کا نوٹس لینے میں وہ کسی لیت ولعل کے روادار نہیں تھے ۔
ہم نے انھیں پیرانہ سالی اور بڑھاپے میں زیادہ دیکھا ہے جب وہ جوانوں اور شاہینوں کی طرح پلٹتے جھپٹتے اور بہت جلد منزل مقصود کو پانے کا جگررکھتے تھے ۔
کمال کا شخص تھا ، غصب کا آدمی تھا ، وہ قائدانہ صفات ومزاج رکھتا تھا مگر آج کے ایرکنڈیشن محلوں اور تنعمات سے پٹے ہالوں سے اسے کوئی سروکار نہیں تھا ، نہایت سادہ ، کفایت شعار اورمختصر سے تام جھام میں رغبت رکھنے والا یہ مرددرویش عجیب ڈھب کا سپہ سالار تھا ،
جس وقت یہ چندسطریں موبائل کی اسکرین پر لکھ رہا ہوں ، یقین مانئے دل رورہا ہے ، آنکھیں نم ہیں ، جسم ساکت وجامد ہے مگر ان کی اداؤں کا ایک جہان روشن ہے ، مسجد کے منبرومحراب سے لے کر جامعہ کے منصب تدریس تک اور سہارن پور کے گاندھی پارک سے لے کر دھلی کے رام لیلی میدان تک سفروحضراور خلوت وجلوت میں ان کی خوب صورت شخصیت کے نمونے بکھرے پڑے ہیں جنھیں اب زیب قرطاس کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ پس آئندگاں ان نقوش قدم پر آگے بڑھ سکیں
مولاناظہوراحمد صاحب حضرة الاستاذ مفتی سعیداحمد پالن پوری قدس سرہ کے غالبا درسی ساتھی بھی تھے ، اس کا اظہار انہوں نے دارالعلوم دیوبند میں منعقد رابطۀ مدارس اسلامیہ کے ایک اجلاس میں کیا تھا ، اس لحاظ سے آپ کا شمار دارالعلوم کے قدیم افاضل میں ہوتاتھا ، دیوبندوسہارن پور اور راۓ پور کے بزرگوں سے ان کی وابستگی بڑی مستحکم اور محبت بھری تھی جبکہ فداۓ ملت حضرت مولاناسیداسعد مدنی سابق صدرجمعیة علماء ہند کے تو وہ انتہائی قریب اور معتمدعلیہ شخصیت تھے ،
مولانا ذاکروشاغل اور صوم وصلاة کے پابند ایک شب زندہ دار مرد صالح تھے ، دوردراز علاقوں کا مشقت بھرا سفر کرلینے کے باوجود وہ شب کے اخیر حصہ میں اپنے پروردگار سے رازونیاز کی باتیں کرنا اس کی چوکھٹ پہ اپنی جبین نیاز کو خم کردینا ایک لابدی وظیفہ سمجھتے تھے جس کے لطف ومٹھاس سے حظ اٹھانا ان کی عادت ثانیہ تھی ، ایسی ہی ایک شب میں بندہ نے انھیں دیکھا کہ وہ دوسروں کی راحت ونیند کا مکمل لحاظ کرتے ہوۓ سحرخیزی فرمارہے ہیں ، نیز تلاوت کلام اللہ اور مہمانوں کی مدارات میں بھی ان کا جوش عمل دیدنی ہوتا تھا ، اب ایسے رجال کار اور باہمت ملی افراد نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہیں ، اللہ سے دعا ہے کہ حضرت مولانا کی بال بال مغفرت فرمائیں حسنات کو مقبول فرمائیں اور پسماندگان کو صبرجمیل موفق فرمائیں آمین۔
0 Comments