غزہ: غزہ میں جنگ کے ۲۱ ویں دن بھی اسرائیلی بمباری مسلسل جاری رہی، اسرائیلی فوج نے عوامی مقامات پر حملوں کا سلسلہ دراز کرتے ہوئے ۲۴ گھنٹوں میں ۴۳ خاندانوں کا اجتماعی قتل عام کیا۔ غزہ پٹی کے خان یونس اور جبالیہ کیمپ سمیت مختلف علاقوں میں مزید شہادتیں ہوئی اور غزہ میں مزید گھروں اور مساجد کو تباہ کیاگیا۔
غزہ الآن کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے غزہ کی مواصلاتی سروس منقطع کردی ہے۔ غزہ اب مکمل طو رپر دنیا سے کٹ کر رہ گیا ہے۔ ادھرالمیادین عربی کی رپورٹ کے مطابق حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈزنے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’اسرائیلی فوج نے جمعہ کو صبح سویرے غزہ کے جنوب میں واقع رفح ساحل پر لینڈنگ آپریشن کرنے کی کوشش کی۔ لیکن مزاحمتی تنظیموں کے اراکین نےصورت حال بھانپ لیا اور اس کا مقابلہ کیا، شدید جھڑپ ہونے پر اسرائیلی فضائیہ نے بزدل فوج کو بچانے کے لیے مداخلت کی لیکن حماس کے مجاہدین کے تابڑتوڑ حملوں سے خوف کھاکر بڑی مقدار میں گولہ بارود چھوڑ کر سمندر کی طرف فرار ہوگئی‘‘۔میادین نے مزید لکھا کہ حماس نے اسرائیل کی بستیوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
جمعہ کو القسام نے تصدیق کی کہ انہوں نے اسرائیلی قتل عام کے جواب میں تل ابیب، گوش دان اور اشدود میں مسلسل راکٹوں سے حملہ کیا ، اسرائیلی میڈیا نے بتایا کہ تل ابیب میں ایک عمارت کو شدید نقصان پہنچا جس میں تین آبادکار ہلاک ہوگئے۔ دریں اثناء فلسطینی وزارت صحت نے آج جمعہ کو بتایا کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کی تعداد ۷۳۲۶ہو گئی ہے جن میں ۳۰۳۸بچے، ۱۷۲۶خواتین اور ۴۱۴بزرگ شامل ہیں جب کہ زخمیوں کی تعداد ۱۸۹۶۷تک پہنچ گئی ہے۔وزارت صحت نے کہا کہ اسرائیلی مسلسل غزہ میں ہولوکاسٹ کررہا ، ہر دن وہ غزہ میں درجنوں قتل عام کا مرتکب ہورہا ہے۔وزارت نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اسرائیلی فوج نے گزشتہ گھنٹوں میں ۴۱قتل عام کیے، جس میں ۲۹۸شہید ہوئے۔ وزارت صحت نے کہاکہ ۷ اکتوبر سے لے کر اب اسرائیلی درندوں ۷۷۲خاندانوں کا قتل عام کیا ہے جس میں ۵۵۰۰ شہید ہوگئے۔ وزارت نے بتایا کہ متاثرین کی ایک بڑی تعداد اب بھی ملبے کے نیچے ہے۔
المیادین کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی پر حالیہ حملوں میں ۳۰ افراد شہید ہوئے ہیں، جب کہ اسرائیلی فوج نے پٹی کے مرکز دیر البلاح ،رفح کے مشرق میں، پٹی کے جنوب میں المنطار کے علاقے کو بھی نشانہ بنایا۔ شجاعیہ محلہ، البریج کیمپ اور النصیرات کیمپ کے وسط اور غزہ شہر کے وسط میں الصابرہ پر بمباری کی، علاوہ ازیں طیبہ مسجد، العودہ، الندا اور بیسان ٹاورز کو بھی نشانہ بنایا گیاہے، اور غزہ میونسپلٹی کی قدیم عمارت کو بھی بم سے اڑانے کی دھمکی دی گئی، جو کہ ایک گنجان آباد محلے کے وسط میں واقع ہے۔ ادھر جمعہ کے پیش نظر قبلہ اول میں مسلمانوں کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی، صرف پانچ ہزار عمردراز مصلی ہی نماز جمعہ کی سعادت حاصل کرسکے۔ قبلہ اول کے اطراف سختی پہرہ لگا کر مسلمانوں کو روکنے کی کوشش کی گئی یہاں تک مسلمان مسجد نہ پہنچ سکیں انہیں روکنے کےلیے ناپاک پانی کے بوچھاڑ کیے گئے ۔ تیسرے جمعہ کے پیش نظر اسرائیلی جارحیت کے خلاف مصر، اردن، ایران، افغانستان، یمن سمیت دیگر ممالک میں احتجاج کیاگیا اور غزہ میں امداد رسانی کےلیے اقوام عالم سے اپیل کی گئی کہ جلد وہاں امداد پہنچائی جائے تاکہ غزہ کے رہائشیوں کو موت سے بچایا جاسکے۔ عراقی مظاہرین کے ایک ہجوم نے اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں غزہ کی حمایت میں عراق اردن کی سرحد پر جمعہ کی ادا کی۔وہیں صنعا میں بھی میدان میں بڑی تعداد میں جمع ہوکر نماز جمعہ ادا کی اور فلسطین کی حمایت کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کی۔
ادھر دیر شام اسرائیلی فوج الشفاء اسپتال کو خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا اور حماس کے تعلق سے کہا کہ حماس ایندھن چوری کرتی ہے اور الشفاء اسپتال کے نیچے کی سرنگیں ہیں جسے تخریب کار استعمال کرتے ہیںاسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہاگری نے کہاکہ الشفا ہسپتال کے نیچے موجود سرنگ کو تخریب کار حفاظتی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔اس نے کہاکہ غزہ کے ہسپتالوں میں ایندھن موجود ہے اور حماس اسے اپنے انفراسٹرکچر کے لیے استعمال کرتی ہے۔حماس انروا سے ایندھن چوری کرتی ہے اور ہسپتالوں میں دستیاب ایندھن کو تباہی کے لیے استعمال کرتی ہے۔حماس کے پاس ایندھن کا بڑا ذخیرہ ہے جسے وہ صرف اپنی ضروریات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اس نے یہ بھی کہاکہ حماس کی مرکزی کمان غزہ میں الشفا ہسپتال کے نیچے واقع ہے۔
وہیں حماس نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ دشمن کی فوج کے ترجمان کا الشفاء اسپتال کے تعلق سے جھوٹ فلسطینیوں کے خلاف ایک نئے قتل عام کا پیش خیمہ ہے جو بیپٹسٹ ہسپتال میں ہونے والے قتل عام سے بڑا ہوسکتا ہے ، حماس نے کہاکہ چالیس ہزار سے زائد شہری الشفاء ہسپتال میں پناہ لے رکھی ہے ، ہم ایک نئے قتل عام کا انتباہ دیتے ہیں، اور ہم دنیا کے ممالک اور ان کے رہنماؤں سے نسل کشی کے جرائم کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہیں دیر شام مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطینی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ حماس کی قید میں موجود اسرائیلیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیل غزہ پر حملے بند اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر غور کررہا ہے۔عبرانی چینل کان نے صہیونی حکومت کے سیاسی اہلکار کے حوالے سے کہا ہے کہ اسرائیلی قییدوں کی رہائی کے عوض غزہ کو ایندھن کی فراہمی کی حماس کی شرط پر عملدرامد کے لئے غور کیا جارہا ہے۔اس سے پہلے صہیونی وزیرجنگ یوا گیلانت نے کہا تھا کہ صہیونی قیدیوں کی رہائی کے بدلے غزہ پر حملے روکنے پر غور نہیں کیا جارہا ہے۔ اس وقت صہیونی حکومت قیدیوں کی رہائی کے تمام آپشنز پر غور کررہی ہے۔امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا کہ حماس کے پاس موجود یرغمالیوں کی رہائی کے لیے قطر کی قیادت میں ہونے والے مذاکرات میں ’اہم پیش رفت‘ ہوئی ہے لیکن اس ضمن میں مسائل موجود ہیں۔سفارتی ذریعے کا کہنا تھا کہ ’بات چیت اچھے بہت اچھے طریقے سے جاری ہے۔ ہمارے پاس پیش رفت ہے، مسائل اب بھی موجود ہیں لیکن مذکرات جاری ہیں اور ہم پرامید ہیں۔‘ملاقاتوں سے باخبر ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ مشرق قریب کے امور کے لیے امریکی نائب وزیر خارجہ باربرا لیف قطر کی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کے لیے دوحہ میں ہیں۔
مذاکرات پر پیش رفت کے حوالے سے ایک سوال پر اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گلانت نے جمعرات کو پریس کانفرنس میں کہا کہ ’ہر چینل ممکنہ چینل ہے۔‘گلانت کے مطابق ’ایک بات واضح رہنی چاہیے۔ ہمارا ایک مقصد ہی ہے۔ میں ریاست اسرائیل اور اسرائیلی دفاعی فورسز پر اعتماد کرتا ہوں … اور ہم یرغمالی اور لاپتہ افراد کو واپس لانے کی ہر کوشش کریں گے۔‘اس خبر کی الجزیرہ سمیت دیگر ذرائع ابلاغ نے بھی تصدیق کی ہے۔ وہیں دوسری جانب روسی اخبار ’کومرسنٹ‘ نے حماس کے ایک رہنما کے حوالے سے کہا ہے کہ تحریک غزہ میں جنگ بندی پر اتفاق کرنے سے پہلے قیدیوں کو رہا نہیں کر سکتی۔قبل ازیں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے جمعرات کی رات کہا ہے کہ القسام بریگیڈ اور استقامتی تحریک کے ساتھ غزہ کے عوام کا خوان دشمن پر فاتح ہوگا۔کہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ علاقے کے حالات دھماکہ خیز ہوگئے ہیں اور غزہ پر حملوں کا جاری رہنا پورے علاقے کو کنٹرول سے باہر کردے گا۔انھوں نے کہا کہ گزشتہ 20 دن کے دوران استقامتی محاذ بالخصوص القسام بریگیڈ نے دشمن پر کاری وار لگانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے ۔ اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ استقامتی محاذ غزہ کی سرحدوں کی حفاظت کررہا ہے اور خون کے ہمراہ اپنا پیغام پہنچا رہا ہے ۔انھوں نے کہا کہ استقامتی محاذ ایک ملی تحریک ہے جو اپنی سرزمین اور قوم کی آزادی کے لئے جدوجہد کررہا ہے اور دہشت گرد، صیہونی دشمن اور وہ لوگ ہیں جو اس کی حمایت کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ فلسطین کی تحریک استقامت کے قانونی حق کی حمایت میں آواز اٹھانے والوں اور دلیرانہ موقف اختیا کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ ہم غزہ کے عوام تک ان کی ضرورت کا سامان پہنچانے کے لئے سبھی راستے بالخصوص رفح پاس مستقل طور پر کھولے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ قابل قبول نہیں ہے کہ غزہ میں صرف وہی سامان پہنچے جو صیہونی دشمن چاہے بلکہ جن جن چیزوں کی غزہ کے عوام کو ضرورت ہے ، وہ سب پہنچنا چاہئے۔اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ دنیا بھر کے عوام غزہ کے عوام پر حملے بند کرنے کا مطالبہ اور سڑکوں پر مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھیں۔
0 Comments