از :عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی
مدیر ماہنامہ مظاہرعلوم سہارنپور 7895886868
اگست ۲۰۰۱ ء میں ماہنامہ مظاہرعلوم سہارنپور کے مدیر تحریر کی حیثیت سے مظاہرعلوم سہارنپور میں میرار تقرر ہوا ،اور اسی وقت مولانا سید محمد شاہد الحسنی سے میری ملاقات ہوئی ،اِس ملاقات سے پہلے ۱۹۹۳ء میں کسی مناسبت سے حضرت والا خیرآباد تشریف لے گئے تھے اور خیرآباد کی جامع مسجد میں حضرت والا کا خطاب ہواتھا اور ماہنامہ یادگار شیخ کی ممبر سازی بھی ہوئی تھی اس موقع سے صرف زیارت کا شرف حاصل ہوا تھا ۔
مظاہرعلوم میں میری ملازمت کے بائیس سال مکمل ہوچکے ہیں اس پورے دورانیہ میں میں نے مولانا سید محمد شاہد صاحب کو بیک وقت تین محاذوں پر اس جفاکشی کے ساتھ مصروف عمل دیکھا جس کی مثال آج کے اِس دور میں بہت ہی مشکل ہے
۱- تصنیف و تالیف
اللہ تعالی نے آپ کو یہ خاص وصف عطا فرمایا تھا ،جب بھی سہارنپور ہوتے ،مسلسل تصنیف و تالیف میں اپنے کو مشغول رکھتے ،نتیجۃً آپ کے گہر بار قلم سے بہت سی ایسی کتابیں وجود میں آئیں جو اپنے موضوع پر انتہائی وقیع اور جامع ہیں ،خاص طور پر مظاہرعلوم،علماء مظاہرعلوم،خدمات مظاہرعلوم پر ایسا دستاویزی مواد ارباب تحقیق اور دنیا کے سامنے انھوں نے پیش کردیا ہے مستقبل میں مظاہرعلوم کی تاریخ پر لکھنے اور بولنے والا کوئی بھی فرد اس سے مستغنی ہرگز نہیں ہوسکتا ،اسی لئے کہتا ہوں کہ تاریخ مظاہر اور خدمات مظاہر کے سلسلہ میں آپ شاہ کلید کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
۲- اسفار
مولانا کی زندگی میں اسفار بہت ہیں ،ابھی کسی تالیف کا مسودہ تیار کرارہے ہیں اور ابھی اپنا بیگ اور بریف اٹھایا اور سفر پرروانہ ہورہے ہیں ،یہ اسفار کبھی کسی مدرسہ کے جلسۂ دستار بندی کے لئے ہوتا ،کبھی کسی علمی موضوع پر کسی کانفرنس میں شرکت اور اپنا مقالہ پیش کرنےکے لئے،کہیں کتبِ احادیث کے ختم کی تقریب میں تو کبھی مظاہرعلوم کے انتظام و معاملات کے سلسلہ میں ۔
دفتر امین عام میں
ان چو طرفہ مشغولیات کے ساتھ مدرسہ کے داخلی و خارجی معاملات و مسائل پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے ،طلبہ کے مسائل ،تعلیمی سرگرمیوں پر نظر،اس کے استحکام کے لئے مسلسل کوشش ،مدرسہ کے مالیاتی نظام کو بارک بینی سے دیکھنا اور اس کے سلسلہ میں صائب اور درست فیصلے کرنا ۔
یہ وہ امتیازی خصوصیات تھیں جن کی بناء پر بر ملا یہ کہا جاتا ہے کہ مظاہرعلوم کی تاریخ میں ایسی جفا کش،محنتی اور تدبیر و تدبر کی حامل شخصیت نہیں گزری ۔
آپ کی گوناگوں صفات سے متصف زندگی پر مستقل مقالے لکھے جائیں گے ،بروقت حضرت مولانا کا ایک سوانحی خاکہ پیش کیا جاتا ہے
پیدائش: ۲۶؍ربیع الاول ۱۳۷۰ھ/۲۱؍جنوری ۱۹۵۱ءجمعہ کے روز نانا محترم حضرت
مولانا محمد زکریا شیخ الحدیث نوراللہ مرقدہ کے مکان کچہ گھر سہارنپور
آغازِ تعلیم ۱۹؍ذی الحجہ ۱۳۷۵ھ/۲۸؍جولائی ۱۹۵۶ء شنبہ کے روز حضرت مولانا شاہ
عبدالقادر رائے پوری کی خانقاہ میں تعلیم کا آغاز
تکمیل حفظ ۲۸؍شعبان ۱۳۷۹ھ/۲۶؍فروری۱۹۶۰ء جمعہ کے روز مولانا محمد یوسف
صاحب کے سامنے مولانا انعام الحسن ،مولانا حکیم سید محمد ایوب وغیرہ کی موجودگی
میں حفظ کلام پاک کی تکمیل ہوئی
مظاہرعلوم میں باضابطہ داخلہ ۱۵؍شوال ۱۳۸۵ھ/۶؍فرووری ۱۹۶۶ء میں
درجۂ متوسطہ میں باقاعدہ داخلہ ہوا۔اور اسی سال رمضان میں اہنی خاندانی مسجد
مسجد حکیمان میں پہلی محراب سنائی ۔
نکاح ۲۵؍شوال ۱۳۸۸ھ/۱۵؍جنوری ۱۹۶۹ء میں حضرت مولانا انعام الحسن
کاندھلوی کی صاحبزادی مسماۃ صادقہ خاتون سے عقد مسنون ہوا۔
مظاہرعلوم سے فراغت شعبان ۱۳۹۰ھ/اکتوبر ۱۹۷۰ء میں دورہ حدیث سے
فراغت ہوئی ،امسال دورہ کے اسباق کی ترتیب یہ تھی
بخاری و مسلم حضرت مولانا محمد یونس جونپوری کے پاس،ابوداود و نسأئی مولانا محمد
عاقل صاحب کے پاس،ترمذی مولانا مفتی مظفر حسین صاحب کے پاس،طحاوی
مولانا اسعداللہ صاحب کے پاس پڑھی
نزول آب کی وجہ سے حضرت شیخ مولانا محمد زکریا صاحب اپنا درس بخاری
موقوف فرماچکے تھے ۔
شادی کی تکمیل۲۵؍شعبان ۱۳۹۰ھ/۲۷؍اکتوبر ۱۹۷۰ء اہلیہ محترمہ رخصت ہوکر آپ کے
گھر آئیں ۔
فنون میں داخلہ فراغت کے بعدشوال ۱۳۹۰ھ/دسمبر ۱۹۷۰ء میں فنون میں داخلہ لے کر
بیضاوی،تفسیر مدارک، در مختار،ملا حسن،دیوان متنبیوغیرہ پڑھ کر شعبان
۱۳۹۱ھ/اکتوبر ۱۹۷۱ء میں فنون کی تکمیل کی۔
بیعت فنون سے فراغت کے بعد اسی سال اپنے نانا جان مولانا شیخ محمد زکریا ؒ کے ہاتھ پر بیعت کی
مظاہرعلوم میں مدرسی شوال ۱۳۹۲ھ میں مظاہرعلوم میں تدریس کے لئے تقرر ہوا
اور پہلے سال مرقات اور نفحۃ الیمن آپ سے متعلق رہیں
گویا ۱۹۷۲ء سے باقاعدہ تدریس کا تعلق مظاہرعلوم سے قائم ہوا اور تا ایں دم مختلف اتار چڑھاؤ کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہا ، چنانچہ امسال بھی ترجمہ قرآن پاک کا سبق آپ سے متعلق رہا ،لیکن اعذار اور بیماری کی وجہ سے آپ نے وہ سبق مولانا سید محمد عثمان (پیر صاحب) کے حوالہ کردیا تھا ۔
نصف صدی سے زائد اس طویل عرصہ میں مولانا سید محمد شاہد صاحب نے مظاہرعلوم کے لئے وہ عظیم الشان خدمات انجام دی ہیں جو تاریخ مظاہرکا ایک اہم باب ہے اور مظاہرعلوم کا مؤرخ جلی عنوان سے آپ کی خدمات کو لکھے گا ۔
وفات مظاہرعلوم سہارنپور کا یہ عظیم الشان مردِ مجاہد اپنی زندگی کی تمام تر علمی صلاحیت اورذہنی توانائی صرف کرکے لائق تحسین خدمات انجام دے کرآج۲۰؍ربیع الاول ۱۴۴۵ھ/۶؍اکتوبر ۲۰۲۳ء جمعہ کے روز قبیل مغرب جوارِ رحمت میں منتقل ہوگیا۔اللہ تعالی مولانا محمد شاہد صاحب کو اپنی خصوصی رحمتوں سے نہال فرمائے ،انت کی باغ و بہار ان کا مقدر فرمائے۔
آخری بات درجنوں کتابیں آپ کی قلمی یادگار ہیں۔ جس میں بعض بعض کئی جلدوں میں ہیں۔ ۱۹۹۳ھ سے جامعہ مظاہر علوم کے امین عام تھے۔ اس وقت اپنے حالات زندگی حیاتِ مستعار کے نام سے لکھ رہے تھے،جس کی تین جلدیںمنظر عام پر آچکی ہیں۔ چوتھی اور آخری جلد زیر تصنیف تھی ،جامعہ مظاہرعلوم اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے باہمی تعلقات پر ایک دستاویزی کتاب ’’دو علمی آبشار‘‘ طباعت کے لئے پریس جاچکی ہے ۔
0 Comments