برطانیہ سے دار العلوم دیوبند پہنچے افغانستان نژاد برٹش معروف صحافی عنایت الحق یاسینی نے کہاکہ اسلاموفوبیا کے خاتمے کا سفر شروع ہو چکا ہے اور ہماری نسل نو اب دنیا کے سامنے اسلامی کردار پیش کرنے کے لئے تیار ہے ،اب وہ وقت زیادہ دور نہیں کہ جب ایک مرتبہ پھر اسلام دنیا کے لئے امن و آشتی کا پیامبر اور مثالی نمونہ بن کر ابھرے گا۔ عنایت الحق یاسینی نے کہا کہ مغربی ممالک میں رہائش پذیر نسل نو اسلامی اقدار کی پاسداری کے ساتھ ساتھ دوسروں کی تہذیب و ثقافت اور مزاج و نفسیات کا درک رکھنے لگی ہے اور اپنے معاشرتی عمل سے اسلام کی صحیح تصویر اور تعلیمات دوسروں تک پہنچا رہی ہے،یہ ایک خوش آئند پہلو ہے۔ اس موضوع پر انہوں نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کی صحیح تصویر دیگر اقوام کے سامنے پیش کرنے کے لئے مسلم ممالک کے حکمرانوں کا رویہ بھی بڑا اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں انہوں نے پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود ان سے مکمل طور پر متفق نہیں ہیں تاہم یہ سچ ہے کہ عمران خان نے عصری معنویت کے ساتھ دنیا کے سربراہان مملکت کے سامنے اسلام کی جو شبیہ پیش کی ہے وہ دیگرمسلم حکمرانوں کے لئے ایک مثال ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے بارے میں تبصرا کرتے ہوئے عنایت الحق یاسینی نے کہا کہ ارض جہاں پر کچھ حیرت انگیز اور تعجب خیز واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ان میں سے دارالعلوم دیوبند بھی ایک ہے ، بانیان دار العلوم دیوبند کے ذہنوں میں ایک سو پچاس سال پہلے جس نہج پر یہ ادارہ قائم کرنے کا خیال پیدا ہوا اس کی کوئی دوسری نظیر دنیا میں نہیں ملتی،یہ خود ایک حیرت انگیز واقعہ ہے کہ ڈیڑھ سو سال سے ایک ادارہ اپنے بانیان کی فکر اور نہج پر بدستور قائم ہے ،انہوں نے کہا کہ پاکستان ،افغانستان اور دنیا کے کسی بڑے ملک میں بھی دار العلوم دیوبند جیسا کوئی ادارہ قائم نہیں ہو سکا ،آج اس ادارہ کے اثرات و ثمرات پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ دار العلوم دیوبند کی سب سے اہم اور اچھی بات یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو ہر حال میں سیاسی ماحول کی پراگندگی سے آج تک محفوظ رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دار العلوم دیوبند کی لائبریری ایک کلاسیکل لائبریری ہے ، جوہندوستان کے کتب خانوں میں اپنی مثال آپ رکھتی ہے ،
عنایت الحق یاسینی نے افغانستان کے موجودہ حالات اور وہاں پر تعلیم نسواں کے مسئلہ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ مخلوط تعلیم کو بہتر تصور نہیں کرتے ہیں لیکن تعلیم نسواں وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اس کے لئے معقول نظم ہونا چاہئے،انہوں نے کہا کہ افغانستان کا بڑا مسئلہ وہاں کاخط افلاس ہے، بڑی آبادی غربت اور بیماری میں مبتلا ہے ۔
0 Comments