اتر پردیش حکومت کی جانب سے ریاست کے مدارس کو بیرون ملک سے ملنے والے فنڈز کی تحقیقات کے لیے ایک ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل رینک کے افسر کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی گئی ہے۔
اتر پردیش میں تقریباً 25000 مدارس ہیں اور 16500 سے زائد مدارس ریاستی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن سے تسلیم شدہ ہیں۔ اے ٹی ایس کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل موہت اگروال نے کہا کہ " ہم یہ تحقیقات کریں گے کہ غیر ملکی فنڈنگ سے حاصل ہونے والی رقم کیسے خرچ ہوتی ہے، اور اس بات کی بھی تحقیقات کی جائے گی کہ کیا یہ رقم مدارس کو چلانے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے یا کسی اور کام کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔
اگروال نے کہا کہ مدارس کو حاصل ہونے والے غیر ملکی فنڈز کی تحقیقات کو مکمل کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی طے شدہ وقت نہیں بتایا گیا ہے۔ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ دونوں مدارس کے بارے میں تحقیقات کی جائے گی۔ ایس آئی ٹی نے پہلے ہی اپنے بورڈ سے مدارس کی تفصیلات طلب کی ہیں۔ تحقیقاتی ایجنسی ہند-نیپال سرحد سے متصل اضلاع میں فعال مدارس پر زیادہ توجہ دے گی۔
پچھلے سال اگست میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی حکومت نے ریاست میں ضلع مجسٹریٹس کو غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے کرنے کی ہدایت دی تھی۔ دو ماہ کے سروے کے دوران 8449 مدارس کو ریاستی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے تسلیم شدہ نہیں پایا گیا اور یہ مدارس بورڈ سے الحاق کے بغیر ہی کام کررہے تھے۔
ذرائع کے مطابق نیپال کی سرحد سے متصل لکھیم پور کھیری، پیلی بھیت، شراوستی، سدھارتھا نگر اور بہرائچ کے علاوہ کئی دیگر قریبی علاقوں میں گزشتہ چند سالوں میں مدارس کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ان مدارس کو غیر ملکی فنڈنگ ملنے کی بھی اطلاع موصول ہوئی ہے۔
ادھر مظفرنگر کے محکمہ تعلیم نے دینی تعلیم دینے والے ایک درجن سے زائد مدراس کو نوٹس جاری کیا ہے، جس میں پوچھا گیا ہے کہ بال شکشا ادھیکار ادھینيم کی تعلیم کے قانون 2009 کے باب 4 کے سیکشن 18 کے مطابق تسلیم شدہ ہے یا نہیں۔اگر مدرسہ تسلیم شدہ ہے تو آپ تین دن کے اندر مدرسہ کی پہچان سے متعلق ریکارڈ پیش کر سکتے ہیں اور اگر آپ کے مدرسہ کو تسلیم شدہ نہیں ہے، تو آپ کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔ نیز اگر آپ کا مدرسہ کھلا پایا گیا تو آپ پر روزانہ 10 ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔
مدارس کو بیسک ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کی طرف سے نوٹس ملنے کے بعد تمام مدرسہ آپریٹروں میں ہلچل مچ گئی۔ جس کو لیکر جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے دوپہر تمام مدرسہ آپریٹروں کے ساتھ ایک میٹنگ کی گئی۔
جمعیت علماء اتر پردیش کے سکریٹری قاری ذاکر حسین نے بتایا کہ ضلع مظفر نگر میں دینی مدارس میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ مدارس آزادی سے پہلے بھی چلتے رہے ہیں۔ جو آئین کی طرف سے فراہم کردہ مذہبی آزادی کے بنیادی حقوق کے تحت چلائے جاتے ہیں۔ یہ مدارس اسکولوں کے زمرے میں نہیں آتے ہیں۔ تاہم محکمہ تعلیم کی جانب سے چند روز سے ان مدارس کو نوٹس جاری کیے جا رہے ہیں کہ مذکورہ مدرسہ کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ لہٰذا مذکورہ مدرسہ کو فوری طور پر بند کیا جائے نہیں تو آپ پر دس ہزار روپے روزآنہ جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ یہ نوٹس محکمہ تعلیم کی جانب سے بال شکشا ادھیکار ادھینيم کی تعلیم کے قانون 2009 کے باب 4 کے سیکشن 18 کے تحت بھیجے جا رہے ہیں، جبکہ بچوں کی مفت اور لازمی تعلیم ایکٹ 2009 کے سیکشن 18 کے تحت ترمیم شدہ ایکٹ 2012 کے سیکشن 2 (5) میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ یہ اصول مسلم مدارس، اسکولوں یا مذہبی اداروں پر لاگو نہیں ہوتا ہے۔اس لیے محکمہ تعلیم کی جانب سے اس طرح نوٹس بھیجنا انتہائی قابل مذمت ہے، جس سے امت مسلمہ میں غصہ پایا جا رہا ہے۔
اس موقع پر جمعیۃ علماء اترپردیش کے سکریٹری قاری ذاکر حسین نے مزید کہاکہ ملک کی آزادی میں مدارس کا اہم رول رہا ہے اور مدارس کے طلباء کا ریکارڈ یہ ہے کہ انہوں نے آزادی کے بعد ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ محکمہ تعلیم کی جانب سے مدارس کو غلط نوٹس دیے جا رہے ہیں۔ آج بھی مدارس کے ذریعے امن، اتحاد، باہمی محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیا جاتا ہے۔ ان مدارس کی اہمیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
0 Comments