Latest News

فلسطین میں انسانیت کا قتل عام ہورہا ہے، اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مولانا ابو طالب رحمانی اور مولانا محمود دریابادی کا خطاب۔

بنگلور: مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا ابو طالب رحمانی نے فرمایا کہ فلسطین و اسرائیل جنگ نے دنیا بھر میں حق و باطل کی تفریق واضح کر دی۔ ایک طرف حق کا ساتھ دینے والے اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں تو دوسری جانب باطل کی حمایت میں اسرائیل کے ساتھ دنیا بھر کے مختلف ممالک ہیں۔ اس حق و باطل کے معرکہ میں تیسرا گروہ بھی ہے جو منافقین کا ہے، یہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ دنیا اس وقت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے ایک ظالم کے ساتھ کھڑے ہیں اور دوسرے مظلوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔مظلوم کا ساتھ دینے کیلئے مسلمان ہونا ضروری نہیں بلکہ انسان ہونا ضروری ہے۔کیونکہ فلسطین میں ظالم اسرائیل انسانیت کا قتل عام کررہا ہے۔ لہٰذا یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ انسانیت کی بقاء اور اس کے تسلسل کا مسئلہ بھی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ صیہونی ریاست عالمی قانون اور انسانیت کی تمام حدیں پامال کر چکی ہے۔ مغربی ممالک نے فلسطینیوں کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کے وحشیانہ جرائم کے مقابلے میں حیرت انگیز خاموشی اختیار کر کے عام شہریوں کے قتل عام میں اس غاصب حکومت کی ہمت بڑھائی ہے اور وہ وسائل فراہم کر کے عورتوں اور بچوں کے قتل عام میں برابر کے شریک بھی بنے ہوئے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ آج لوگ درخت کی حفاظت پر تنظیمیں بناتے ہیں اور تحریکیں چلاتے ہیں لیکن افسوس کہ وہ انسان جن کیلئے اللہ تعالیٰ نے ان درختوں کو پیدا کیا اس کے قتل عام پر اس طرح خاموش ہیں کہ معلوم ہوتا ہیکہ ان کے یہاں مسلمانوں کے جان کی کوئی قیمت نہیں۔ مولانا نے دوٹوک فرمایا کہ فلسطینیوں مسلمان جام شہادت نوش فرماکر زندہ ہیں لیکن دنیا مرچکی ہے، اسکا ضمیر مر چکا ہے۔ جنازہ فلسطینیوں کا نہیں بلکہ انسانیت کا جنازہ نکل رہا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اہل فلسطین کی ہمت و جرأت، ایثار و قربانی، غیرت اسلامی و جذبہئ ایمانی اور استقامت نے یہ ثابت کردیا کہ فلسطین زندہ ہے اور فلسطینی ایک زندہ قوم ہے،جو باطل کے سامنے نہتے نبردآزما ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ آج جو کچھ اسرائیل صہیونی ظالم فلسطین میں کررہے ہیں اس سے پوری انسانیت شرمسار ہے۔ اگر دنیا کی نظر میں یہ صحیح ہے تو تو ہٹلر غلط کیوں تھا؟ مولانا نے فرمایا کہ آج اہل فلسطین پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں اس کے باوجود آج امت مسلمہ غفلت کی نیند سو رہی ہے، معاشرے میں برائیاں عام ہوتی جارہی ہیں، کیا اب بھی وقت نہیں آیا ہیکہ ہم اپنی اور اپنے معاشرے کی اصلاح کریں؟ مولانا نے فرمایا کہ اہل فلسطین و غزہ نے پورے عالم اسلام کو یہ دیکھا دیا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ کیسے ملتا ہے، یہ چیز ویسے ہی نہیں ملتی بلکہ احکام الٰہی اور شریعت محمدی کا پابند ہونے سے ملتی ہے، جس کو اپنانے کی ہمیں سخت ضرورت ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اہل فلسطین و غزہ قابل مبارکباد ہیں کہ پوری امت مسلمہ کی جانب سے وہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

مرکز تحفظ اسلام ہند کے تحفظ القدس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن مولانا محمود احمد خاں دریابادی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہئ اول اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ مسجد اقصیٰ حقیقت میں مسلمانوں کی میراث ہے جو تاریخی اور مذہبی حقائق سے ثابت ہے مگر یہ جس جگہ پر تعمیر کی گئی، یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گرا کر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا۔ مولانا نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں شامل ہیں، اسی میں قبۃ الصخرۃ بھی شامل ہے۔ مولانا دریابادی نے مسجد اقصیٰ اور فلسطین کی تاریخ پر تفصیلی روشنی ڈالی اور فرمایا کہ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد یورپ سے آئے ہو غاصب یہودیوں نے ہزاروں سال سے فلسطین میں آباد فلسطینیوں کو ان کی زمینوں اور جائدادوں سے بے دخل کر کے انہیں کمیپوں میں نہایت ابتر حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اقوام متحدہ اور دنیا کے طاقتور ممالک کو اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے اور فلسطین کو اپنا حق اور ان کی زمین واپس کرانی چاہئے۔ اسی کے ساتھ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے غزہ اس وقت قبرستان میں تبدیل ہوچکا ہے۔ لیکن تمام نام نہاد انسانیت کے علمبردار خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اسرائیل نے انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔لہٰذا فلسطین کے موجودہ حالات میں مسلم ممالک کو ٹھوس اقدامات کرنی چاہیے اور اقوام متحدہ، حقوق انسانی کونسل، سلامتی کونسل اور دیگر عالمی تنظیمیں کو مداخلت کرے عالمی امن کے لئے سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے۔ مولانا نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فوری مداخلت کرکے فلسطین کے مسئلہ کے پائیدار حل پر عمل درآمد کرائے، انہوں نے فوری طور پر جنگ بندی کے ساتھ اسرائیل کی جارحیت اور بربریت کو ختم کرنے، غزہ کا محاصرہ ختم کرنے، اور فوری طور پر بلاروک ٹوک انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر غزہ کیلئے امداد کی ضرورت پر زور دیا۔ مولانا دریابادی نے فرمایا کہ فلسطینی جدو جہد آزادی کی حمایت ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم جز رہی ہے۔ اب تک سبھی رہنماؤں نے نہ صرف فلسطینی جدوجہد کی حمایت کی بلکہ انکے فلسطین سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ لہٰذا موجودہ حکومت سے اپیل ہیکہ وہ ہندوستان کی سابقہ خارجہ پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے فلسطینیوں کی جدوجہد کی مکمل حمایت کرتی رہے اور فلسطین کیلئے اپنے طور جو بھی مدد ہو سکتی ہے کرے۔ مولانا نے فرمایا کہ ارضِ فلسطین انبیاء علیہم السلام کا مسکن اور مدفن ہے، مسجد اقصٰی ہمارا قبلہئ اول بھی ہے، لہٰذا ارضِ فلسطین سے مسلمانوں کا مذہبی و جذباتی تعلق ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطین کے ان حالات میں بحیثیت مسلمان ہماری یہ بنیادی ذمہ داری ہیکہ ہم اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہوں، ان سے یکجہتی کا اظہار کریں، اسرائیل جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر دونوں اکابرین نے مرکز تحفظ اسلام کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر