نئی دہلی: قومی دارالحکومت میں اگلی میٹنگ میں اپوزیشن انڈیا بلاک کیلئے مثبت ایجنڈہ، نشستوں کی تقسیم اور مشترکہ ریلیاں منعقد کرنا اصل چیلنجزہوں گے۔اپوزیشن جماعتوں ’میں نہیں ہم ‘کی تھیم کے ساتھ آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتی ہیں تاکہ وزیراعظم نریندرمودی کا توڑ کیاجائے۔ کانگریس کے ایک سینئر قائد نے بتایاکہ ۱۸؍ ۱۹؍ دسمبر کو اپوزیشن اتحاد کی میٹنگ منعقد ہونے کا امکان ہے۔
یہ میٹنگ راجستھان، چتھیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں کانگریس کی شرمناک شکست کے پس منظر میں ہورہی ہے۔ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ آئندہ سال ۲۰۲۴میں بھی عوام مودی حکومت کو ہی منتخب کریں گے۔ اپوزیشن جماعتوں کے سامنے اب چالینج متبادل مثبت ایجنڈہ کا ہے تاکہ اگلے عام انتخابات میں بی جے پی کا توڑ کیاجائے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ میٹنگ میں اپوزیشن جماعتیں نشستوں کی تقسیم، مشترکہ انتخابی ریالیوں اور مشترکہ پروگرام بنانے پر غور وفکر کریں گی۔ کانگریس قائد نے مانا کہ ۲۰۲۴میں بی جے پی کا مقابلہ کرنے کیلئے اُن کی پارٹی الگ ہٹ کر سونچے گی۔ مودی کا توڑ کرنے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کا نعرہ ’میں‘ نہیں ’ہم ‘ہوسکتا ہے۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ انڈیا الائنس ذات پات پرمبنی مردم شماری، اقل ترین امدادی قیمت(ایم ایس پی) کی قانونی گارنٹی اور ورکرس کی سوشل سیکوریٹی کے مسائل اُٹھاسکتا ہے۔ انڈیا بلاک وزیر اعظم منموہن سنگھ کی ۱۰سالہ حکمرانی کو اُجاگر کرے گا۔وہ بتائے گا کہ وزیر اعظم نریندرمودی کی دس سالہ حکومت میں عام آدمی کی زندگی میں آیا کوئی فرق پڑا۔ لوک سبھا انتخابی مہم کے دوران اڈانی مسئلہ بھی اُٹھایاجائے گا۔ ۲۶جماعتوں کے قائدین قومی دارالحکومت میں منعقد شدنی میٹنگ میں آئندہ کی حکمت عملی وضع کرنے کیلئے اکھٹا ہوں گے۔چیف منسٹر مغربی بنگال وٹی ایم سی سربراہ ممتا بنرجی ۱۷تا ۱۹دسمبر دارالحکومت میں ہوں گی۔ امکان ہے کہ وہ میٹنگ میں شرکت کریں گی۔ دیگر سینئر قائدین کی موجودگی یقینی بنانے کیلئے کام ہورہا ہے۔ انڈیا بلاک کیلئے مثبت ایجنڈہ بنانا اپوزیشن جماعتوں کیلئے بہت بڑا چیلنیج ہے۔بھارت جوڑو یاترا کے دوران بڑھتی معاشی نابرابری، بڑھتی مہنگائی کے جومسائل اُٹھے تھے اُن کی گونج لوک سبھا الیکشن کے دوران سنائی دے سکتی ہے۔ یہ مسائل اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ ایجنڈہ کا حصہ بن سکتے ہیں اور ان سے اپوزیشن اتحاد کو بی جے پی سے ٹکر لینے میں مدد مل سکتی ہے۔کانگریس قائد نے کہاکہ تین ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا مطلب یہ نہیں کہ انتخابی مہم کے دوران اُٹھائے گئے مسائل کو عوام نے مسترد کردیا۔
0 Comments