Latest News

جموں کشمیر سے ۳۷۰ ہٹانے کا فیصلہ برقرار، ساڑھے چار سال بعد سپریم کورٹ کی مہر، ستمبر ۲۰۲۴ تک الیکشن کرانے کا حکم، وزیراعظم مودی نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو تاریخی قرار دیا۔

نئی دہلی: آرٹیکل ۳۷۰کو ختم کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ ا گیا اور سپریم کورٹ نے اس فیصلے پر اپنی مہر لگا دی سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ فیصلہ بالکل درست ہے۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ’صدرجمہوریہ جموں و کشمیر میں آئین کی تمام دفعات کو مرکز کی رضامندی سے لاگو کر سکتے ہیں اور اس کے لیے ریاستی اسمبلی کی بھی منظوری حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔‘ مرکز نے ۵ اگست ۲۰۱۹کو جموں و کشمیر سے آرٹیکل ۳۷۰کو ہٹا دیا تھا۔ چار سال، چار ماہ اور چھ دن بعد آنے والے اپنے فیصلے میں، عدالت نے کہا، 'ہم آرٹیکل ۳۷۰کو منسوخ کرنے کے صدر کے حکم کو درست سمجھتے ہیں۔ ہم لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کے فیصلے کی صداقت کو بھی برقرار رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے ۳۰ستمبر ۲۰۲۴ک ریاست میں اسمبلی انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے۔عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد وزیر اعظم مودی نے کہاکہ ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ انہو ںنے ایکس پر ایک پوسٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ، " دفعہ ۳۷۰کی تنسیخ پر سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ تاریخی ہے اور آئینی طور پر پانچ اگست ۲۰۱۹کو ہندوستان کی پارلیمنٹ کے ذریعہ لیا گیا فیصلہ برقرار رکھتا ہے۔ یہ جموں، کشمیر اور لداخ میں ہماری بہنوں اور بھائیوں کے لیے امید، ترقی اور اتحاد کا ایک شاندار اعلان ہے۔ وزیراعظم کا مزید کہنا ہے کہ، عدالت نے اپنی گہری دانشمندی کے ساتھ اتحاد کو مضبوط کیا ہے جسے ہم ہندوستانی ہونے کے طور پر ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں۔انہوں نے مزید لکھا کہ میں جموں، کشمیر اور لداخ کے لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ آپ کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ہمارا عزم اٹل ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ ترقی کے ثمرات نہ صرف آپ تک پہنچیں بلکہ ہمارے معاشرے کے سب سے کمزور اور پسماندہ طبقات تک بھی پہنچیں جو دفعہ ۳۷۰کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔ مودی نے اپنی پوسٹ کے آخر میں لکھا کہ، آج کا فیصلہ صرف قانونی فیصلہ نہیں ہے۔ یہ امید کی کرن ہے، ایک روشن مستقبل کا وعدہ ہے اور ایک مضبوط، زیادہ متحد بھارت کی تعمیر کے ہمارے اجتماعی عزم کا ثبوت ہے۔ قبل ازیں چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ مرکز کے ہر فیصلے کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا کرنے سے انتشار پھیلے گا۔ اگر مرکز کے فیصلے سے کسی قسم کی مشکل پیدا ہو رہی ہے تو اسے صرف چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے عرضی گزاروں کی اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ صدر راج کے دوران مرکز کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ آرٹیکل ۳۵۶کے بعد مرکز پارلیمنٹ کے ذریعے ہی قانون بنا سکتا ہے۔ سی جے آئی نے کہا کہ فیصلے میں تین ججوں کے فیصلے شامل ہیں۔ ایک فیصلہ چیف جسٹس، جسٹس گوائی اور جسٹس سوریہ کانت کا ہے۔ دوسرا فیصلہ جسٹس کول کا ہے۔ جسٹس کھنہ دونوں فیصلوں سے متفق ہیں جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں بینچ آئین کے آرٹیکل ۳۷۰کو منسوخ کرنے کے فیصلے کے خلاف کشمیری سیاسی جماعتوں کی جانب سے دائر اپیلوں پر محفوظ فیصلہ سنایا۔انہوں نے کہا کہ ’یونین ٹریٹری کے لیے آرٹیکل۳۷۰ایک عارضی اقدام ہے لہٰذا جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال ہونی چاہیے۔سپریم کورٹ نے انڈین الیکشن کمیشن کو ستمبر ۲۰۲۴تک جموں و کشمیر میں انتخابات کرانے کا بھی حکم دیا ہے-دوسری جانب درخواست گزاروں نے موقف اپنایا تھا کہ حکومت نے پارلیمنٹ میں اکثریت کا استعمال کیا اور صدر کے ذریعے ایک مکمل ریاست کو جموں و کشمیر اور لداخ کے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے لیے ایگزیکٹو آرڈرز کا سلسلہ جاری کیا۔درخواست گزاروں نے حکومت کے اس اقدام کو ’وفاقیت پر حملہ اور آئین کے ساتھ دھوکہ‘ قرار دیا۔سال ۲۰۱۹میں اس کے خلاف دائر ۱۸درخواستوں پر ۱۶دن کی سماعت کے بعد، سپریم کورٹ نے پانچ ستمبر کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، بی آر گاوائی اور جسٹس سوریہ کانت سمیت پانچ ججوں کی آئینی بنچ پیر کو فیصلہ سنایا۔ مرکزی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل آر وینکٹرامانی، سالیسٹر جنرل تشار مہتا، سینئر ایڈوکیٹ ہریش سالوے، راکیش دویدی، وی گری اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔ اسی وقت، کپل سبل، گوپال سبرامنیم، راجیو دھون، ظفر شاہ، دشینت ڈیو اور دیگر سینئر وکیلوں نے درخواست گزاروں کی طرف سے اپنے دلائل پیش کیےتھے۔سی جے آئی نے کہا کہ صدر راج کے دوران ریاست کی جانب سے مرکز کے ہر فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے عرضی گزاروں کے ان دلائل کو مسترد کر دیا کہ صدر راج کے دوران مرکز کی طرف سے کوئی ناقابل واپسی کارروائی نہیں کی جا سکتی ہے۔ سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ جموں و کشمیر میں صدر کے اعلان کی صداقت پر سپریم کورٹ کو فیصلہ دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ عرضی گزاروں نے اسے چیلنج نہیں کیا ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ صدر کے پاس آرٹیکل ۳۷۰کو ختم کرنے کا حق ہے۔ مرکزی حکومت کے فیصلے پر سوال اٹھانا مناسب نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگست ۲۰۱۹کا فیصلہ برقرار رہے گا۔ سی جے آئی نے یہ بھی کہا کہ مرکز اور ریاست کے درمیان تعلق آئین میں واضح ہے۔ آئین کا آرٹیکل ۳۷۰ریاست جموں و کشمیر کو ہندوستان کی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں خصوصی حیثیت دیتا تھا۔ اس آرٹیکل کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت اور داخلی خود مختاری حاصل تھی۔ آئین کا آرٹیکل ۳۵اے ریاست کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کشمیر کے مستقل باسیوں کی تشریح کرے اور ریاست کے باسیوں کے خصوصی حقوق اور مراعات کا تعین کرے۔آرٹیکل ۳۵اے کو آئین میں ۱۹۵۴میں ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے شامل کیا گیا تھا۔ آرٹیکل کے تحت اگر کوئی کشمیری خاتون ریاست سے باہر کسی شخص سے شادی کرتی ہے تو وہ کشمیر میں جائیداد کا حق کھو بیٹھتی ہے۔ اس قانون کے تحت ریاست سے باہر کا کوئی بھی شہری کشمیر میں غیر منقولہ جائیداد نہیں خرید سکتا، مستقل رہائش نہیں رکھ سکتا اور ریاست کی جانب سے دیے جانے والے وظائف بھی حاصل نہیں کر سکتا۔اس آرٹیکل کے تحت ریاستی حکومت ریاست کے باہر کے لوگوں کو نوکریوں پر نہیں رکھ سکتی۔آئین کی شق ۳۷۰کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے۔اس شق کے تحت مرکزی حکومت، خارجہ، دفاع اور مواصلات کے شعبوں میں ریاست کشمیر کی حکومت کی رائے سے مناسب قانون سازی کر سکتی ہے جبکہ دوسرے تمام معاملات میں ریاست کی اپنی قانون ساز اسمبلی کی مرضی کے بغیر کوئی مداخلت نہیں ہو سکتی۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر