Latest News

ہمیں بنیادی طور پر اردو اخبارات و رسائل کو خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیے، بیسویں صدی کے منتخب افسانے کے اجرء کے موقع پر پدم شری پروفیسر اختر الواسع کا اظہار خیال۔

نئی دہلی:  ”سخن سرائے“ ادبی فورم دہلی کے زیر اہتمام ڈاکٹر شمع افروز زیدی مدیرہ بیسویں صدی کی مرتب کردہ کتاب ” بیسویں صدی کے منتخب افسانے “ کا اجرا عمل میں آیا۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر مجلس پدم شری پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ بیسویں صدی نے ہمیں بہت کچھ دیا، خوشتر گرامی جیسے لوگوں نے یہ ثابت کیا کہ زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہر مذہب کو زبان کی ضرورت ہوتی ہے، زبانیں سنواد کے لیے ہوتی ہے وواد کے لیے نہیں۔ اردو صحافت کی جو آبیاری کی اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا،بیسویں صدی کو رحمان نیر آگے بڑھا پائے ،اس میں شمع افروز زیدی کی رفاقت کا اہم کردار ہے۔ ہمیں بنیادی طور پر اردو اخبارات و رسائل کو خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔مہمان خصوصی ڈاکٹر خالد علوی کے الفاظ میںبیسویں صدی کی بے انتہا مقبولیت کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں زمانہ طالب علمی میں ایک بار تامل ناڈو گیا تو وہاں جولار پیٹ جنکشن پر میں نے بیسویں صدی رکھا ہوا دیکھا۔ بیسویں صدی جیسے اہم رسالے کی پرانی فائلوں کو احتیاط سے رکھنا اور ان فائلوں میں سے بہترین افسانوں کا انتخاب کرکے کتابی شکل میں شائع کرنا شمع زیدی صاحبہ کا قابل ستائش کارنامہ ہے۔ یہ کام شمع زیدی کو ہی کرنا تھا، کیونکہ یہ اور کوئی نہیں کرسکتاتھا۔ میری دعا ہے ہر لحظہ نیا طور، نئی برق تجلی ،اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے! چنڈی گڑھ سے تشریف لائیں ڈاکٹر رینو بہل نے کہا۔ بیسویں صدی رسالہ نہیں ایک انسٹی ٹیوشن ہے ،یہ موقع میرے لیے باعث مسرت اور قابل فخر ہے، کیونکہ میں نے اس رسالے سے اردو سیکھی اورمیرے افسانے لکھنے کی بنیاد رکھی گئی۔ شمع زیدی نے اس کا معیار اور وقار قائم رکھا ہے ۔پروفیسر خالد محمودکہتے ہیں کہ اچھی تخلیقات لکھنے والوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے،بچپن میں جن رسائل نے متاثر کیا، ان میں بیسویں صدی بھی ہے۔جناب خورشید اکرم نے کہاایک رسالہ جس کی عمر نوے سال سے زیادہ ہے افسانہ کے حوالے سے ہی جانا جاتا ہے۔ ساٹھ ،ستر کی دہائی میں شاید ہی کوئی لکھنے پڑھنے والا ہو جس نے بیسویں صدی نہ پڑھی ہو بیسویں صدی کی پہچان تھی،جو ادب عالیہ میں آنا چاہتے تھے تو وہ بیسویں صدی میں چھپنا چاہتے تھے۔ پروفیسرابوبکر عباد کے لفظوں میںتمام افسانے رومانی قسم کے ہوتے تھے ایک کیفیت میں انسان مبتلا ہو جاتا تھا۔ بیسویں صدی جس دور میں نکلتا تھا وہ رسالوں کا زمانہ تھا اس کتاب کی ترتیب میں بڑی محنت کی ہے، شمع افروز زیدی صاحبہ نے بڑی محنت سے مرتب کیا ہے۔ پروفیسر محمد کاظم نے کہا بیسیوی صدی رسالہ، بیسویں اور اکیسویں صدی کے نمائندہ افسانہ نگاروں کی نمائندگی کرتا ہے۔ بیسویں صدی کے کون اہم افسانہ نگار اور شاعر ہیں جو بیسویں صدی میں شائع نہیں ہوئے ۔یہ کتاب افسانوی ادب کے لیے یہ اہم ہے ۔جناب ارشد ندیم کے الفاظ میں بیسیوں صدی پر ہمارا بجنور حاوی رہا،بیسویں صدی کا یہ انتخاب اکیسویں صدی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ محترمہ نگار عظیم کہتی ہیں کہ ایسے ماحول میں جب اردو کے رسائل اور ادارے بند ہو رہے ہیں بیسویں صدی کا جاری رہنا خدائی کرشمہ ہے۔ ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا بیسیوں صدی ایسا رسالہ جس کے پڑھنے پر ہمارے گھر میں پابندی نہیں تھی، بیسیوں صدی پڑھنے کے بعد پہلا جذبہ پیدا ہوتا تھا کاش ہم چھپیں اس میں، جب میرا پہلا افسانہ چھپا تو میں خود یقین نہیں کر پا رہی تھی، بیسویں صدی نے مجھے افسانہ نگار بنایا ،سہیل انجم کے خیالات ہیں آج نہ صرف بیسویں صدی کے افسانوں کے انتخاب کا اجرا ہو رہا ہے بلکہ بیسویں صدی رسالہ کا احیا ہو رہا ہے۔بیسویں صدی کے افسانوں میں شائستگی تھی، چھچورا پن نہیں تھا ادبی مسائل پر گفتگو ہوتی تھی۔ حقانی القاسمی نے کہا کہ بیسویں صدی رسالہ کی پہچان، شناخت بیسویں صدی کا اختصاص، ادب عالیہ کے ساتھ اردو زبان کو زندہ رکھا۔ لاہور سے جو رسالہ جاری ہوا تھا آج بھی جاری ہے، ہردور میں فکشن کے باب میں اس کی شناخت رہی ہے تمام اہم مشاہیر شائع ہوئے ہیں۔ شعیب رضا خان کہتے ہیں بیسیوں صدی رسالہ پر کسی خاص رجحان کااثر نہیں تھا،اپنے وقت کا بڑا رسالہ تھا ،اس کا مقابلہ بڑے رسائل سے تھا۔ ڈاکٹر شکیل اخترنے کہا کہ جس زمانے میں یہ شروع ہوا تھا تو اس نے کس کس کی ذہنی پرداخت کی ہر ایک جانتا ہے اگر یہ نہیں ہوتا تو بہت سے افسانہ نگار آزادی کے بعد سامنے نہیں آتے،بیسویں صدی نے جو سنگ میل قائم کیا آج تک کوئی رسالہ نہیں کر سکا۔
کنوینر ڈاکٹر رخشندہ روحی مہدی نے کہا کہ اپنے محبوب رسالے کے لئے بے انتہا محبت کا اظہار یہ کتاب کے اجرا کی تقریب ہے۔ اللہ کرے کہ شمع زیدی کی سانسیں چلتی رہیں اور رسالہ بیسویں صدی زندہ رہے۔ نظامت کے فرائض معین شاداب نے بڑے والہانہ اور برجستہ جملوں کےساتھ انجام دیے ۔اہم شرکاءمیں خورشیدحیات، افسانہ نگار ناظمہ جبیں، شاعرہ ذہین فاطمہ، ڈاکٹر خالد مبشر، اسرار گاندھی، نرگس سلطانہ، ڈاکٹر عرفان، عبدالباری قاسمی، کشفی شمائل وغیرہ آخر میں ڈاکٹر شمع افروز زیدی نے تمام شرکاءاور مہمانوں کا شکریہ کہتے ہوئے ادا کیا کہ بیسویں صدی میری سانسوں میں بستا ہے۔

 سمیر چودھری۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر