Latest News

خان سعدیہ کوثر نئی نسل کے لیے مشعل راہ: نازش ہما قاسمی۔

ممبئی کے گوونڈی جیسے سلم اور تعلیم سے نابلد علاقے کی کوئی لڑکی اگر اعلیٰ تعلیم حاصل کرلے تو یہ ایک معجزہ ہی ہے۔ کیوں کہ گوونڈی میں ابھی تک نہ کوئی بہتر اسکول ہے اور کالج تو ہے ہی نہیں ۔ وہاں کے بچوں میں اب بھی تعلیمی شرح ممبئی کے دوسرے علاقوں کے مقابل انتہائی کم تر ہے۔ گوونڈی میں تعینات ایک افسر نے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ ہمیں گوونڈی سے صرف قتل، چوری، ڈاکہ زنی اور چرس کی لت میں مبتلا نئی نسل کے کرائم کی خبریں موصول ہوتی ہیں اگر یہاں تعلیم کا بہتر بندوبست کرادیاجائے تو یہ سب لعنتیں ختم ہوسکتی ہیں، لیکن نہ کوئی سیاست داں اس پر دھیان دیتا ہے اور نہ ہی کوئی مذہبی رہنما ٹھوس اقدام اُٹھانے کو تیار ہیں اگر یہاں بہتر تعلیمی اداروںکا قیام اور نئی نسل کی تربیت کا بہتر انتظام ہوجائے تو گوونڈی کی شبیہ بہتر ہوسکتی ہے۔ خان سعدیہ کوثر اسی گوونڈی علاقے کی عقل مند، تیز فہم، صاحب فراست دوشیزہ ہیں جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنی تربیت اور علاقے کا نام روشن کیا ہے۔ فی الحال ایم بی بی ایس کی دوسرے سال کی طالبہ ہیں۔ ان کے والد حافظ علائوالدین صاحب نیک سیرت اور خدا ترس انسان ہیں، انہوں نے اپنی اولادوں کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ان کے ایک لڑکے سلطان صلاح الدین خان سول انجینئرنگ مکمل کرچکے ہیں وہیں دوسرے بیٹے ابواسامہ خان کمپیوٹرانجینئر ہیں ۔
 ایک شہد کے تاجر حافظ علائوالدین نے اپنی بیٹی سعدیہ کوثر کے ایم بی بی ایس کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ہر وہ کچھ کیا جو ایک مخلص باپ کو کرناچاہئے۔ خان سعدیہ کوثر بچپن سے ہی ذہین، فطین اور اسکول میں اعلیٰ نمبرات حاصل کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ جونیئر کالج بی کتہ کوٹہ ضلع چتور آندھرا پردیش کے انگلش میڈیم اسکول سے بارہویں امتحان میں 98.5فیصد نمبرات حاصل کرکے اپنے ذیرک وذہین ہونے کا ثبوت دے چکی ہیں۔ فی الحال وہ فاطمہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (راما رجوپالی، کڈپہ، آندھرا) سے ایم بی بی ایس کی طالبہ ہیں۔
خان سعدیہ کوثر اپنی محنت واستقامت سے جو مقام حاصل کیا ہے وہ نئی نسل کےلیے مشعل راہ ہے ۔ انہوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ایک معمولی تاجر کی بیٹی بھی اپنے خواب پورے کرسکتی ہے کہ جب وہ اپنی منزل ومقصود کو معین کرلے ، اگر منزل معین ہوتی ہے تو راہیں آسان تر ہوتی جاتی ہیں ،دشواریاں سہولیات میں بدل جاتی ہیں جس طرح خان سعدیہ کوثر نے اپنی محنت، لگن، مستقل مزاجی، ہمت وحوصلہ سے ثابت کیا ہے۔ ورنہ لوگ اپنی اولادوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کےلیے لاکھوں جتن کرتے ہیں لیکن پھر بھی پریشان رہتے ہیں کہ آیا وہ کامیاب ہوں گے یا نہیں۔ وہیں اکثر اخباروں کی زینت بنتے دیکھا ہوگا کہ ایک معمولی رکشہ ڈرائیور کی بیٹی آئی پی ایس بن گئی، ایک معمولی اخبار فروش کا لڑکا انجیئنر بن گیا یہ سبھی اپنی محنت، لگن اور حوصلے سے مقام پاتے ہیں۔ خان سعدیہ کوثر کے والد حافظ علائوالدین خان نے بتایاکہ مجھے اپنی اولادوں کو اعلیٰ تعلیم سے بہرہ ور کرانے کےلیے بہت مصائب ومشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن کبھی ہمت نہیں ہاری، کبھی دوسروں کے سامنے دست فریاد نہیں دراز کیا بلکہ خدا کی ذات پر ہمیشہ یقین کامل رہا کہ ہماری اولادیں ان شاء اللہ خدا کے فضل وکرم سے نیک نامی کا باعث بنیں گے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکےملک وملت کا نام روشن کریں گے۔
بتادیں کہ حافظ علائوالدین خان کا تعلق اترپردیش کے بستی ضلع سے ہے وہ علماء نوازاور دینی اداروں سے محبت کرنے والے افراد میں سرفہرست ہیں۔ انہوں نے ممبئی میں دارالعلوم دیوبند دفتر کےلیے بے پناہ قربانیاں دینے کے علاوہ جمعیۃ علماء کو بھی متعارف کرایا اور اسے پروان چڑھایا، لیکن انہوں ان اداروں سے کبھی مالی منفعت کی نہ سوچی بلکہ اپنے معمولی تجارت میں مشغول رہے ۔ اب بھی وہ شہد کے کاروبار سے منسلک ہیں اور ان کے لبوں پر ہمیشہ ’خدا کا شکر‘رہتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر اپنی اولادوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانی ہے تو کسی ملی تنظیم، یا اداروں سے تعاون کےلیے درخواست نہ دیں وہاں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے سوائے ضیائے وقت اور آنے جانے کی دقت وپریشانیوں کے۔ بس خدا پر بھروسہ اور اپنی اولادوں کی لیاقت پر اعتماد رکھتے ہوئے انہیں ان کی متعین منزل کی راہ پر چھوڑ دیں ان شاء اللہ کامیابی مقدر ہوگی۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر