Latest News

"جشن سال نو۔Happy New Year" : ڈاکٹر تمیم احمد قاسمی۔

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
نیو ائیر جو عیسائیون کی ایک رسم ہےجو اب پوری دنیا میں اور اکثرمسلمانوں میں بھی مقبول ہوچکی ہے۔2023 عیسوی سال ختم ہونے کو ہےاور نیا سال 2024 آنے والا ہے، سال نو کے پرُجوش استقبال کے لیے بچے ،جوان، بوڑھے، مرد اور عورتیں سب اس کے منتظر ہیں۔اسکولوں اور کالجوں میں پکنک کے نام پر موج مستی کرنےاور ناچ گانے کی محافل سجانے کے لیے سب جنگلات کی حسین اور دلفریب مناظر کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔کچھ لوگ والدین کی محنت کی کمائی کو خرافات میں بہانے میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔کچھ لوگ آمد ِسالِ نو کی مبارکباد پیش کرنے کے لیے عمدہ اور ڈیزائن دارامیج کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔کچھ لوگ اپنے دوستوں کے ساتھ تصاویر کھچوانے کے لیے خوبصورت پارک کی تعیین میں ہمہ وقت مشغول ہیں اور حد یہ کہ اُس جشن میں بلاتفریق مذہب و ملت ،ہندو مسلم ،سکھ عیسائی سبھی شامل کار ہیں.اس دنیا میں ہماری دوحیثیت ہیں ایک انسان ہونا دوسرامسلمان ہونا.پہلی حیثیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہمیں دنیا سے قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہیے، کیونکہ ہم انسان ایک دنیا ومعاشرے میں رہنے والے افراد ہیں، اس لیے بلا تفریقِ دین و ملت اور مذہب و مسلک اِس میں بسنے والے انسانوں کے قدم بہ قدم چلنا چاہیے ،لیکن اگر دوسری حیثیت کو دیکھیں تو یقینا ہمیں وہی کرنا چاہیے جو دوسری حیثیت کے لوگ کرتے ہیں کیونکہ ہم مسلمان ہیں اب اصل مقصد کی طرف رجوع کرتا ہوں. ہم مسلمان ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ دنیا ختم ہونے والی ہے۔حقیقی اور لا فانی زندگی آخرت کی ہے یعنی مرنے کے بعد آنے والی زندگی ہے.اور ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ آخرت کی کامیابی سنن ِرسول اللہﷺ پر عمل کرنے اور انکے وارثین کی اتباع میں مضمر ہے جبکہ دشمنانِ اسلام کے طریقے میں ناکامی اور پریشانی ہے۔تمام مذاہب اور قوموں میں تہوار منانے اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔پر ہر ایک تہوار کا کوئی نہ کوئی پسِ منظر ہے۔لیکن اسلام میں تہواریں صرف دو ہیں (عیدین) اس کے علاوہ جو کچھ تہوار کے نام پر ہو رہا ہے وہ صرف بدعت ہے۔نیز ہر تہوار کوئی نہ کوئی پیغام دیکر جاتا ہے۔جن سے نیکیوں کی ترغیب ملتی ہے۔اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہے۔اب ہم نیو ایئر کو اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو یقینا معلوم ہو جائے گا کہ یہ کوئی تہوار نہیں ہے اور نہ خوشی منانے کا موقع ہے،بلکہ یہ محض عیسائیوں کا تہوار ہے جو وہ مناتے ہیں ،جس میں عیاشی وفحاشی اور رقص و سرور کی محفلیں لگتی ہیں۔دراصل یہ نئے سال کا جشن عیسائیوں کا ایجاد کیا ہوا ہے عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلی آرہی ہے اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق 25دسمبر کو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔اس کی خوشی میں کرسمَس ڈے منایا جاتا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہےاور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے ۔نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجاکر 25دسمبر کی رات بارہ بجنے کا انتظار کیا جاتا ہے اور بارہ بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارکبادی دیجاتی ہےاور کیک کاٹنے کی صدا گونجتی ہے Happy new year منایا جاتا ہے۔اور نیویئر میں آتش بازیاں کی جاتی ہے اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتا ہے ،جس میں شراب و کباب اور ڈانس کا بھر پور انتظام رہتا ہے.اسی لیے انکی تفریح صرف دو چیزوں سے ممکن ہے۔ایک شراب دوسرے عورت آج کل ان عیسائیوں کی طرح بہت سے اکثت مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں۔اور 31 دسمبر کا بے صبری سے انتظار رہتا ہےان مسلمانوں نے اپنا قدرو قیمت خود گھٹایا اور اپنے اقتدار روایات کو کمتر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کر دیا.جبکہ یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہےمسلمانوں کا اپنا قمری اور اسلامی تاریخ موجود ہے۔جو نبی اکرم ﷺ کی ہجرت سے ہے۔جس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے یہی اسلامی کیلنڈر ہے۔اسلامی مہینے کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے اس کی آمد پر کبھی آپ ﷺ نے یا ہم نے خوشی منائی ہے یا کوئی صحابیؓ نے خوشی منائی ہے یا کسی عیسائی یا غیر مسلم نے یہ سمجھ کرکہ مسلمانوں کا اسلامی مہینہ ہے خوشی منائی ہے۔نہیں،نہیں جب غیروں نے ہمارے اس مبارک مہینے کی آمد پر خوشی نہیں منائی اور حد یہ ہے کہ ہم نے خود نہیں منائی، تو ہم اغیار کے مہینے کی آمد پر خوشی کیوں منائیں، خاص طور پر جب کہ عیسائیوں کی مذہبی روایت ہے۔نیز خوشی کے نام پر ایسی خرافات مچاتے ہیں کہ دیکھ کر آنکھیں اشک بار اور سن کر انسان حیران و ششدر ہو جاتا ہے۔نئے سال کی مبارکبادی کی کچھ حیثیت اور افادیت ہوتی تو سب سے پہلے ہمارے آقا اس کی طرف توجہ فرماتے اور محرم الحرام کی پہلی تاریخ کا استقبال دھوم دھام سے کیا جاتا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ہماری عمر عزیز کے قیمتی ایام گزرتے جارہے ہیں۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور اللہ ربالعزت سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے اور نیکی کی فکر کرنی چاہیے۔گزرا ہوا سال تلخ تجربات، حسیں یادیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہوجاتا ہے اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہتا ہے، سال ختم ہوتاہے تو حیات مستعار کی بہاریں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنی مقررہ مدت زیست کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہوتا رہتا ہے۔ اسی کو شاعر نے کہا ہے :

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی

گِردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹادی

نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے۔ کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائے گی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؛ اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے؛ لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا؛ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”حَاسِبُوْا أنْفُسَکُمْ قَبْلَ أنْ تُحَاسَبُوْا“۔ (ترمذی ۴/ ۲۴۷ ابواب الزہد، بیروت) ترجمہ: تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے.خلاصہ یہ ہے کہ ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کردیتا ہے؛ اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے میری عمر رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے ۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بل کہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے کچھ کر لینے کی تمنا اس کو بے قرار کردیتی ہے اس کے پاس وقت کم اور کام ز یادہ ہوتاہےہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیں؛بل کہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحا تِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے۔ساتھ ساتھ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ایک اہم امر کی طرف بھی متوجہ کردیا جائے کہ مسلمانوں کا نیا سال جنوری سے نہیں؛ بل کہ محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے جو ہو چکا ہے اور ہم میں سے اکثروں کو اس کا علم بھی نہیں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قمری اور ہجری سال کی حفاظت کریں اور اپنے امور اسی تاریخ سے انجام دیں؛ اس لیے کہ ہماری تاریخ یہی ہے؛اخیر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو غیروں کی مشابہت سے بچائے اور رسول اللہﷺ کی سنت کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

ڈاکٹر تمیم احمد قاسمی، چیرمین، تنظیم فروغ اردو، ٹمل ناڈو انڈیا 9444192513
شعبہ نشرواشاعت۔انجمن قاسمیہ پیری میٹ، چنئی، ٹمل ناڈو، انڈیا۔
anjumanqasimiyah@gmail.com

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر