لکھنؤ: اترپردیش کی ایک مقامی عدالت نے جمعہ کے روز نماز کی ادائیگی کیلئے مسلم وکیلوں کے عدالت سے چلے جانے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔عدالت نے کہا کہ ان وکیلوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ کام بھی عبادت ہے اور انہیں اپنے عدالتی فرائض کا احترام کرنا چاہئے۔عدالت نے حکم دیا کہ اگر مسلم وکلاء نماز کی ادائیگی کیلئے عدالتی کارروائی میں حصہ لینے سے گریز کریں تو غیرقانونی تبدیلی مذہب کیس کے ملزم کو ایک رفیق عدالت فراہم کیا جائے جو عدالتی کارروائی کو جاری رکھ سکتا ہے تاکہ ان میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔این آئی اے / اے ٹی ایس عدالت کے خصوصی جج وویکانندا شرن ترپاٹھی نے جمعہ کے روز ملزم مولانا کلیم الدین اور دیگر کے خلاف تبدیلی مذہب سے متعلق فوجداری مقدمہ کی سماعت کے دوران یہ حکم صادر کیا۔
عدالت نے ملزم کی جانب سے پیش ہونے والے بعض وکیلوں کی ایک درخواست بھی مسترد کردی جو بعض دستاویزات حاصل کرنا چاہتے تھے۔عدالت نے انہیں انتباہ دیا کہ وہ مقررہ وقت کے اندر اس کیس میں کوئی بھی درخواست داخل کریں۔ مقدمہ کی کارروائی کے دوران جہاں گواہوں پر جوابی جرح کی جانی تھی، ایڈوکیٹس محمد امیرنقوی اور ایڈوکیٹ ضیاالاجیلانی نے تقریبا 12:30 بجے دن عدالت کو اس بات سے واقف کرایا کہ آج جمعہ ہے اور وہ ملزم پر جوابی جرح جاری نہیں رکھ سکتے۔انہوں نے عدالت سے اجازت مانگی کہ وہ انہیں جمعہ کی نماز ادا کرنے کیلئے جانے دے۔ عدالت نے ان سے کہا کہ اس مقصد کے لئے انہیں عدالت چھوڑنے کی اجازت دینا مناسب نہیں ہوگا۔ بہرحال بعدازاں عدالت کو ناگزیر حالات میں مقدمہ کی کارروائی ملتوی کرنی پڑی۔ عدالت نے بعض ملزمین کے مسلم وکیلوں کو انتباہ دیتے ہوئے اپنے عہدیدار کو ہدایت دی کہ وہ اس کے لئے رفیق عدالت کا تقرر کریں۔ عدالت نے کہا کہ اگر مسلم وکیل نماز کے لئے کمرہ عدالت سے جاتے رہیں گے تو مقدمہ کی کارروائی مکمل نہیں کی جاسکتی۔
0 Comments