حیدر آباد: المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر بورڈ نے صدارت کی اور بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے کارروائی چلائی، بورڈ کے نائب صدر سید سعادت اللہ حسینی، بورڈ کے سکریٹریز مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی (مالیگاؤں)، مولانا احمد ولی فیصل رحمانی (بہار)، مولانا ڈاکٹر یٰسین علی عثمانی(بدایوں)، بورڈ کے خازن پروفیسر ریاض عمر کے علاوہ صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید محمود اسعد مدنی، امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، جسٹس سید شاہ محمد قادری، مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی، مولانا صغیر احمد رشادی، مولانا عتیق احمد بستوی، ممبر آف پارلیامنٹ اسد الدین اویسی، مولانا نثار حسین حیدر آغا (فرقہ اثنا عشریہ)، مولانا محمد جعفر پاشا، مولانا مسعودحسین مجتہدی (فرقہ مہدویہ)، سینئر ایڈوکیٹ یوسف حاتم مچھالہ، ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس، ترجمان(دہلی)، مولانا عبدالعلیم قاسمی (بھٹکل)، ڈاکٹر ظہیر آئی قاضی (ممبئی)، محمد طاہر حکیم ایڈوکیٹ( گجرات) کمال فاروقی (دہلی)، ضیاء الدین نیر، ڈاکٹر محمد مشتاق علی، مولانا سید اکبر نظام الدین، ڈاکٹر متین الدین قادری، جلیسہ سلطانہ یٰسین ایڈوکیٹ، عطیہ صدیقہ، پروفیسر مونسہ بشریٰ عابدی، محترمہ فاطمہ مظفر اور ملک بھر سے اہم شخصیات نے شرکت کی۔
اجلاس میں درج ذیل تجاویز منظور کی گئیں:
۱۔ مجلس عاملہ کا اجلاس وارانسی کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عید گاہ کے تعلق سے نچلی عدالتوں میں جو نئے تنازعات پیدا کئے گئے ہیں، اس کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اجلاس کا احساس ہے کہ عبادت گاہوں سے متعلق ۱۹۹۱ء کے قانون کے ذریعہ ملک کی مقننہ نے ہر نئے تنازعہ کا دروازہ بند کر دیا تھا، اس اجلاس کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ سپریم کورٹ جس نے بابری مسجد کا فیصلہ دیتے وقت اس قانون کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ اس کے ذریعہ ہر نئے تنازعہ کا راستہ بند کر دیا گیا ہے، وہی مسلمانوں کی متھرا اور کاشی سے متعلق اپیلوں کو نظر انداز کر رہا ہے، اگر ان چور دروازوں کو بند نہیں کیا گیا تو پھر اس بات کا اندیشہ ہے کہ شر پسند قوتیں ملک کے مختلف علاقوں میں نئے نئے فتنے اور تنازعات کھڑے کرتی رہیں گی۔ متھرا کی عیدگاہ کے متعلق ۱۹۶۸ء میں کرشنا جنم بھومی ٹرسٹ اور شاہی عیدگاہ ٹرسٹ کے درمیان ایک معاہدہ کے ذریعہ اس تنازعہ کو حل کر لیا گیا تھا، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ عدالت عظمیٰ سے یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ وہ ان نئے فتنوں کا دروازہ بند کر کے ملک میں امن وامان اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے گا، اسی طرح دہلی کی سنہری مسجد کے تعلق سے این ڈی ایم سی نے ٹرافک کا بہا نہ کر اس کی شہادت کا جو ناپاک منصوبہ بنایا تھا، سرِ دست عدالت نے اس پر روک لگا دی ہے؛ تاہم اجلاس کا احساس ہے کہ سنہری مسجد اور لنٹن ژون میں دیگر ۶؍ مساجد شرپسندوں کے نشانے پر ہیں، بورڈ یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہے کہ یہ تمام مساجد اوقاف کی ان ۱۲۳؍ جائیدادوں میں شامل ہیں، جن پر عدالت نے اسٹے دے رکھا ہے، اسی طرح سنہری مسجد اور دیگر مساجد ہیری ٹیج تعمیرات میں بھی شامل ہے؛ لہٰذا اُن سے چھیڑ چھاڑ کرنا ملک کی تاریخی وراثت کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا۔
۲۔ بورڈ کی مجلس عاملہ کا احساس ہے کہ فلسطین کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے، جہاں اسرائیل کی شکل میں ایک غاصب قوت ملک کے اصل باشندوں کو جلا وطن کرنے پر تُلی ہوئی ہے، اس نے جبروظلم کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں، وہ مسلسل نسل کشی اور وحشیانہ مظالم کا ارتکاب کر رہا ہے، اس جنگ کی ابتداء ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے نہیں؛ بلکہ جون ۱۹۶۷ء سے ہوئی ہے، جب اسرائیل کسی قانونی جواز کے بغیر پورے فلسطین، مغربی کنارہ ،غزہ اور مسلمانوں کی مقدس مسجد’’ مسجد اقصیٰ ‘‘پر بھی قابض ہو گیا تھا، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل بارہا فیصلہ کر چکی ہے کہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں کو خالی کر دے؛ مگر امریکہ اور برطانیہ جیسی استعماری طاقتوں کی شہہ پر اسرائیل نے اب تک اس پر عمل نہیں کیا، یہ اجلاس اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والی عالمی طاقتوں کی سخت مذمت کرتا ہے ،اُن مسلم ملکوں کی بھی جنھوں نے فلسطینیوں کو بچانے کے لئے مدد کا ہاتھ نہیں بڑھایا اور حد درجہ بزدلی کا ثبوت دیتے ہوئے ظلم پر خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ یہ اجلاس حکومت ہند سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ گاندھی جی سے لے کر اٹل بہاری واجپائی تک اور بعد کی حکومتوں میں بھی ہمیشہ ہندوستان نے فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے، حکومت ہندکو اپنے اسی دیرینہ موقف پر قائم رہنا چاہئے؛ کیوں کہ فلسطینیوں کی لڑائی اپنے ملک کی آزادی کی لڑائی ہے نہ کہ کسی دوسرے ملک پر قبضہ کرنے کی، اور اپنے آپ پر ظلم کو روکنے کی جدوجہد ہے نہ کہ دوسروں پر ظلم کرنے کے لئے، یہ اجلاس غزہ کے مروو خواتین، بچوں ،بزرگوں اور نوجوانوں کے عزم واستقلال، پامردی وشجاعت اور صبر واستقامت کے جذبوں کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، یہ اجلاس دنیا کے بیشتر ملکوں اور خود ہمارے ملک میں عام انسانوں نے ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر فلسطینیوں بالخصوص غزہ کے مظلومین کی حمایت میں جس انسانی ہمدردی کا مظاہرہ پیش کیا ہے، اس کی ستائش کرتا ہے،یہ اجلاس عالم اسلام سے بھی یہ اپیل کرتا ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں جرأت کا مظاہرہ کرے اور مظلوم فلسطینی بھائیوں کی ہر طرح سے مدد کرے؛ کیوں کہ وہ حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور حق کا ساتھ دینا انسانی فریضہ بھی ہے اور اسلامی فریضہ بھی۔
۳۔ بورڈ پہلے بھی اس بات کو واضح کر چکا ہے کہ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی ملک کے لئے یونیفارم سول کوڈ بالکل موزوں اور مناسب نہیں ہے، نیز اس طرح کی کوششیں ملک کے دستور کے روح کے بھی خلاف ہیں۔ اقلیتوں کو دستور میں جو ضمانت دی گئی ہے، یونیفارم سول کوڈ اس کو ختم کر کے رکھ دے گا؛ اس لئے نہ مرکزی حکومت کو اور نہ کسی ریاستی حکومت کو یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی بات کرنی چاہئے، یہ بات قطعاََ ناقابل قبول ہوگی۔
۴۔ اجلاس کا احساس ہے کہ ملک میں خواتین کے حقوق اور ان کی عزت وآبرو کے تحفظ کے لئے حکومت کی طرف سے مؤثر تدابیر نہیں ہو رہی ہیں۔ آئے دن عورتوں کی عزت وآبرو پامال کی جا رہی ہے، افسوس کا مقام ہے کہ خواتین کی عزت وعفت کی پامالی میں حکمراں جماعت کے اہم افراد بھی ملوث پائے گئے ہیں، اجلاس کا یہ بھی احساس ہے کہ خواتین کو اپنے جائز اور قانونی حقوق کو حاصل کرنے کے لئے طویل عدالتی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے، جس میں بہت وقت بھی صرف ہوتا ہے اور کثیر سرمایہ بھی۔یہ اجلاس حکومت ہند سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مؤثر اقدامات کر کے ان جرائم پر تیزی سے قابو پائے، محض قانون ساز اداروں میں ۳۳؍ فیصد ریزرویشن دے دینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔
۵۔ اوقاف دینی اور خیراتی مقاصد کے لئے مسلمانوں کے دئیے ہوئے مقدس اثاثے ہیں اور مسلمان ہی اس کے متولی ومنتظم ہوتے ہیں اور وہی اس سے استفادہ کے مستحق بھی ہیں۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اوقاف کی بہت سی اراضی حکومت کے استعمال میں ہیں؛ اس لئے اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بازار کی شرح (مارکیٹ ریٹ) کے لحاظ سے ان املاک کا کرایہ ادا کرے اور منشأ وقف اور قانون شریعت کے مطابق اس رقم کو خرچ کرے؛ تاکہ مسلمان اپنے بزرگوں کی محفوظ کی ہوئی اس دولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔
اسلام کا تصور یہ ہے کہ جب کوئی چیز وقف کر دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہے ، مسلمان خود بھی اس کو اپنی خواہش کے مطابق اپنی ذات پر استعمال نہیں کر سکتا؛ بلکہ اس کو مقررہ مصرف میں ہی استعمال کرنا واجب ہے، یہ شریعت کا حکم بھی ہے اور ملکی قانون بھی اس کو تسلیم کرتا رہا ہے؛ چنانچہ آزادی کے پہلے ہی وقف کا قانون بنا، مختلف مواقع پر اس میں ترمیمات ہوتی رہیں، یہاں تک کہ ۲۰۱۳ء میں اس قانون نے آخری شکل اختیار کی، یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وقف کے اس قانون پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کیا جائے اور وقف بورڈ کو اپنی املاک کے حصول کے لئے عدالتی اختیارات دئیے جائیں؛ تاکہ وہ وقف کی املاک پر ناجائز قبضوں کو ہٹا سکیں۔نیز یہ اجلاس قانون وقف کو منسوخ کرنے کی ہر اقدام کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔
یہ اجلاس اوقاف کے متولیان سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خود بھی اوقافی جائیدادوں کے ناجائز استعمال سے بچیں، دوسروں سے بھی ان کو بچائیں اور وقف کی املاک کے سلسلہ میں خاص طور پر اللہ سے ڈریں؛ کیوں کہ وقف کی جائیداد پر ناجائز قبضہ اور وقف کرنے والے کی منشاء کے خلاف ذاتی مفاد کے لئے اس کا استعمال بدترین خیانت اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے۔
۶۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خیراُمت بنایا ہے اور ان کو دنیا میں انصاف قائم کرنے کے لئے بھیجا ہے؛ لیکن افسوس کہ خود مسلم معاشرہ طرح طرح کی برائیوں میں ملوث ہے اور مختلف طبقات کے ساتھ خاص کر بوڑھے والدین اور خواتین کے ساتھ ظلم وزیادتی کے کثرت سے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ خاص کر نکاح کو مشکل بنا دینے کی وجہ سے سماج میں طرح طرح کی برائیاں پنپ رہی ہیں؛ اس لئے یہ اجلاس تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ نکاح جیسی مقدس تقریب کو آسان بنائیں، سنت کے مطابق نکاح کی تقریب رکھیں، لڑکی والوں سے کسی بھی قسم کا مالی مطالبہ نہ کریں؛ کیوں کہ یہ شریعت میں ناجائز اور حرام ہے۔
۷۔ یہ اجلاس تمام مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ عائلی اور سماجی معاملات میں احکام شریعت کے پابند رہیں، شوہر وبیو ی اور رشتہ دار کے درمیان کوئی نزاع پیدا ہو جائے تو دارالقضاء سے ہی رجوع کریں،اور قرآن وحدیث اور شریعت اسلامی کے مطابق جو فیصلہ ہو اس کو خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہوں۔اسی میں آخرت کی کامیابی اور دنیا کی بھلائی بھی ہے، دارالقضاء کے ذریعہ کم وقت اور کم خرچ میں انصاف حاصل ہو سکے گا۔
۷۔ علماء سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ جمعہ کے بیانات ، مدارس کے جلسوں، اعراس اور دوسرے اجتماعات میں زیادہ سے زیادہ اصلاح معاشرہ پر گفتگو کریں اور خاص کر رمضان المبارک میں اس ماہ کو اصلاح معاشرہ کے مہینہ کے طور پر منائیں، جہیز اور فضول خرچی کے خلاف خطاب کریں اور لوگوں سے اس پر عمل کرنے کے سلسلہ میں عہد بھی لیں۔ علماء وائمہ بورڈ سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ بورڈ کے نکاح نامہ کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے پر توجہ دیں۔
۸۔ یہ اجلاس مسلم خواتین سے اپیل کرتا ہے کہ وہ معاشرہ کی اصلاح میں اہم رول ادا کریں، خاص کر طلاق کے واقعات کو کم کرنے، بیٹے اور بہو کے درمیان تعلقات کو خوشگوار بنانے، غیر شرعی رسوم ورواج کو روکنے، بیٹیوں کو حق میراث دلانے اور نئی نسل کی دینی تربیت کرنے میں؛ اس لئے سماج اور خاندان کی اصلاح میں ان کا ایک مثالی کردار ادا کریں۔
سمیر چودھری۔
0 Comments