آج ۲۲، جنوری ہے ، ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ بنے رام مندر کے افتتاح کا دن ۔ جی یہ مندر ایک مسجد کی جگہ پر بنایا گیا ہے ، اور یہ بات اس ملک کے اپنے وقت کے سب سے بڑے منصف کے فیصلے سے ثابت ہوتی ہے ۔ سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی نے جب بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمے کا فیصلہ سنایا تھا تب یہ واضح کر دیا تھا کہ بابری مسجد کسی بھی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس دعویٰ کے تعلق سے کوئی ثبوت نہیں مل سکا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب واضح طور پر یہ تھا اور آج بھی مطلب یہی ہے کہ بابری مسجد کے تعلق سے یہ جھوٹا پرچار کیا جا رہا تھا کہ یہ مندر کی جگہ پر بنائی گئی ہے ۔ لیکن اس حقیقت کو قبول کر لینے کے باوجود کہ یہ مسجد واقعی مسجد ہے ، اس کی بنیاد کے نیچے کوئی مندر نہ ہے اور نہ کبھی تھا ، سابق چیف جسٹس نے مسجد کی جگہ مندر بنانے کے لیے دے دی تھی ۔ کس بنیاد پر ؟ آستھا کی بنیاد پر ۔ اس ملک میں اگر آستھا ہے تو صرف ہندوؤں کی ہے ، کسی اور کی نہیں ۔ تو آج مسجد کی جگہ پر مندر کا افتتاح کیا جا رہا ہے ، وہ بھی بڑے دھوم دھام سے ، خوب عالیشان طریقے سے ۔ اور کیؤں نہ عالیشان انداز میں افتتاح ہو ، ملک کے وزیراعظم نریندر مودی افتتاح کریں گے ! بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تحریک نے بی جے پی کو آج مرکز تک پہنچایا ہے ، اب وہ اس ملک پر حکمرانی کر رہی ہے ، اور نریندر مودی اس ملک کے وزیراعظم کی گدی پر متمکن ہیں ۔ اگر بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے قیام کی تحریک نہ چلتی ، اور ملک بھر میں اس معاملے پر فرقہ وارانہ کشیدگی نہ پھیلائی جاتی ، تو نہ بابری مسجد شہید کی جاتی اور نہ رام مندر بنتا ، لیکن یہ سب کرنا بی جے پی کے لیے ضروری تھا کہ یہ اس کی سیاست کو عروج پر لے جانے کا واحد سہارا تھا ۔ اور آج بی جے پی عروج پر ہے ، اس لیے وہ مسجد کی جگہ مندر کا افتتاح دھوم دھام سے کر رہی ہے ۔ اس دھوم دھام کا ایک مقصد مسجد پر دعویٰ کرنے والوں پر یہ جتانا بھی ہے کہ ’ تم ہار گیے ہو اور ہم جیت گیے ہیں ۔‘ ٹھیک ہے ، وہ جو کریں کرنے دو ، الجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، یہ قدرت کا اصول ہے کہ عروج کے بعد زوال ہوتا ہے ، لہذا زوال دیکھنے کے لیے تیا رہو ۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ آج کیا کیا جائے ؟ یہ سوال اس لیے ہے کہ آج مرکزی اور بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستی سرکاروں نے عام تعطیل کا اعلان کیا ہے ، لوگ گھروں میں بیٹھیں گے ، لہذا سوال تو اٹھےگا ہی کہ گھر میں بیٹھ کر کیا کیا جائے ؟ وہ جنہیں رام مندر عزیز ہے ٹی وی پر ’ پران پرتشٹھا ‘ یعنی مندر کے افتتاح کا ، راست پروگرام دیکھیں گے ، لیکن وہ کیا کریں جنہیں بابری مسجد عزیز تھی ؟ کیا وہ بھی مندر کی افتتاحی تقریب دیکھیں اور اس تقریب کے شاندار ہونے پر عش عش کریں ؟ یقیناً نہیں ، انہیں آج کے دن بابری مسجد کو یاد کرنا چاہیے ، انہیں اُن لمحات کا پھر سے تصور کرنا چاہیے جب بابری مسجد شہید کی جا رہی تھی اور وہ بےبس تھے ۔ انہیں یہ یاد کرنا چاہیے کہ ان کی مسجد ان کے ہاتھوں سے چھین لی گئی اور اس ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت نے ان کا ساتھ دینے کی کوشش نہیں کی ، انہیں یہ یاد کرنا چاہیے کہ عدلیہ نے بھی ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔ یہ سب یاد کرنے سے یہ احساس ہوگا کہ بابری مسجد کی شہادت کو روکنا اُن کے بس سے باہر تھا ، وہ اس ملک کی ایک منظم بھیڑ کو نہ سمجھا سکتے تھے اور نہ ہی وہ ان کو جبراً اس شرانگیز کارروائی سے روک سکتے تھے ۔ بابری مسجد کو ہتھیانے کے لیے سب یکجٹ تھے ، مسلمانوں نے اپنے طور پر کوششیں کیں ، مظاہرے اور احتجاج کیے ، میمورنڈم دیے ، مقدمے لڑے ، اور تمام کوششوں کے بعد کامیاب نہیں ہو سکے ۔ بابری مسجد کی شہادت کے قصوروار یقیناً شہادت کو روکنے کی کوششیں کرنے والے نہیں ہیں ، قصوروار وہ ہیں جو ہرحال میں مسجد کو مندر بنانے پر تُلے ہوئے تھے ۔ لہذا آج سب یہی یاد کریں اور اس معاملہ کو اللہ کی عدالت میں پیش کر دیں ۔ آج کے دن مزید کرنے کے کام ہیں ؛ احتیاط کریں ، شرانگیز بیانات دینے سے بچیں ، دوسروں کی شرانگیزی سے جذبات میں نہ آئیں صبر کریں ۔ باہر جائیں لیکن اپنے کام سے کام رکھیں ۔ آج ’ جئے شری رام ‘ کے نعرے لگیں گے ، لوگوں کو ان نعروں سے اکسایا جائے گا ، ممکن ہے کہ لوگوں سے کہا جائے کہ وہ بھی نعرے لگائیں ، سب ایسی صورتحال سے خود کو بچائیں ۔ آج کے دن مسجدوں کو آباد کریں ، نمازوں کا اہتمام کریں ، کلمہ طیبہ کا ورد کریں ، شرکیہ ودر سے بچیں ، اور تمام تر ناانصافیوں کے باوجود قانون اور آئین پر اپنے بھروسے کو قائم رکھیں ، کہیں بھی امن و امان کو نہ تو بگاڑیں نہ بگڑنے دیں۔
0 Comments