علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ دینے کے معاملے میں سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے فریقین سے کہا کہ وہ قانون میں تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ کے حق کو محدود کرنے سے متعلق دلیل کے بارے میں محتاط رہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اس دلیل سے پارلیمنٹ کے قانون میں تبدیلی کے حق کو محدود نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم سپریم کورٹ نے اے ایم یو کے کی اقلیتی حیثیت کے معاملے کی سماعت کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی قیادت میں سات ججوں کی بنچ نے 8 دن تک اس کیس کی سماعت کی اور پھر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ 12 فروری 2019 کو سپریم کورٹ نے معاملہ سات ججوں کی بنچ کو بھیج دیا تھا۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں اے ایم یو کو اقلیتی ادارے کا درجہ دینے کی مخالفت کرنے والی ایک پارٹی کی طرف سے دلیل دی گئی۔ایم اے یو ایکٹ میں 1981 کی تبدیلیوں کو چیلنج کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ نے عزیز باشا فیصلے میں اقلیتی حیثیت کو ختم کر دیا ہے۔ لیکن پارلیمنٹ نے قانون میں تبدیلی کرکے اس فیصلے کو پلٹ دیا اور اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت کو بحال کردیا۔ سینئر وکیل این کے کول نے دلیل دی کہ 1981 میں کی گئی قانونی تبدیلی میں فیصلے کی بنیاد کو تبدیل نہیں کیا گیا تھا بلکہ فیصلے کو پلٹ دیا گیا تھا۔ کول نے دلیل دی کہ کسی بھی تاریخی حقیقت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔اس پر فوری تبصرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ سینئر ایڈوکیٹ کول کی طرف سے دی گئی دلیل کے دور رس اثرات ہو سکتے ہیں اور اس کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ ایسی کوئی دلیل نہیں ہونی چاہیے جو پارلیمنٹ کے قانون بنانے کے حق کو چیلنج کرے۔ ایسی کوئی دلیل نہیں ہونی چاہیے جس سے پارلیمنٹ کے اختیار پر سوال اٹھے۔ اس پر سینئر ایڈوکیٹ کول نے کہا کہ وہ بنچ کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ کئی بار ایسا ہوا ہے جب پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون پر بحث ہوئی اور اسے مسترد کر کے اسے غیر آئینی قرار دیا گیا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سب کچھ قانون کے تناظر میں ہوتا رہا ہے لیکن اسے اتنے وسیع پیمانے پر نہ لیا جائے کہ پارلیمنٹ کے اختیار پر سوال اٹھے۔ بدھ کو اپنے ریمارکس میں، سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اقلیتی ادارے کے قومی اہمیت کا ادارہ ہونے سے بنیادی طور پر کچھ بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ درحقیقت مرکزی حکومت نے اپنی تحریری دلیل میں کہا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قومی نوعیت کا ادارہ ہے اور اسے اقلیتی ادارہ نہیں کہا جا سکتا چاہے اس کے قیام کے وقت یہ اقلیتی ادارہ ہی کیوں نہ ہو۔ 1967 میں سپریم کورٹ نے عزیز پاشا کیس میں دیئے گئے فیصلے میں کہا تھا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ یہ فیصلہ پانچ ججوں کی بنچ کا تھا۔ اس کے بعد 1981 میں پارلیمنٹ میں قانون میں ترمیم کی گئی اور اے ایم یو ایکٹ 1920 میں ترمیم کی گئی اور اس کا اقلیتی درجہ بحال کر دیا گیا۔ اس کے بعد یہ معاملہ الہ آباد ہائی کورٹ کے سامنے آیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے 2006 میں پارلیمنٹ کی ترمیم کو مسترد کر دیا اور کہا کہ اے ایم یو آئین کے آرٹیکل 30 کے تحت اقلیتی ادارہ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 2019 میں کیس کو سات ججوں کے پاس بھیج دیا تھا۔اس معاملے میں موجودہ مرکزی حکومت نے پچھلی حکومت سے مختلف رائے لی ہے۔ موجودہ مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ پچھلی حکومت کو کبھی بھی الہ آباد ہائی کورٹ کے 2006 کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کرنی چاہیے تھی۔ مرکزی حکومت نے کہا کہ اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت سے متعلق اپنی حمایت واپس لینے کا فیصلہ آئینی تحفظات پر مبنی ہے۔ مرکز نے کہا تھا کہ سابقہ یو پی اے حکومت کا موقف عوامی مفاد کے خلاف تھا۔
0 Comments